- ہم نے تجارت اور سرحدی معاملات کو سیاست سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ پاکستان بھی ایسا ہی کرے گا
- تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، ہم پاکستان چاہے تو امارت اسلامی ثالثی کی کوشش کر سکتی ہے، افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے تین سال پورے ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو ایک ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ ہماری زبان، مذہب اور وسیع ثقافتی تعلقات ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ طالبان اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان یا دیگر ممالک کے خلاف کسی بھی تنازعے کے لیے استعمال نہ ہو۔
ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے بارے میں خدشات کا جواب دیتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کسی کو بھی اپنی سرزمین سے جنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کو کوئی تشویش ہے یا اس کے پاس کوئی معلومات ہیں تو اسے ہمارے ساتھ شیئر کرنا چاہیے، میڈیا کے ذریعے الزامات لگانے سے بداعتمادی کو فروغ ملتا ہے۔
ذبیح اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کا مسئلہ پچھلے 20 سال ہے اور ٹی ٹی پی نے پاکستان میں جنگ کی ہے، ان کے خلاف آپریشنز ہوئے اور یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے لیکن ہر واقعے کے بعد افغانستان کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جس سے بد اعتماد پیدا ہوتی ہے، پاکستانی اداروں کو امن قائم کرنے پر توجہ دینی چاہئے، ہر معاملے میں افغانستان کو ذمہ دار کیوں قرار دیا جاتا ہے؟
پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان ثالثی کی ماضی کی کوششوں کے بارے میں پوچھے جانے پر ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان کی جانب سے مذاکرات میں سہولت کاری پر آمادگی کی تصدیق کی، ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان چاہے تو ہم ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں، تاہم، ہم اس وقت تک مداخلت نہیں کرتے جب تک کہ دونوں فریق حل کی حقیقی خواہش کا اظہار نہ کریں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے طورخم سرحد پر حالیہ سرحدی جھڑپوں کا بھی ذکر کیا اور مذاکرات اور سیاسی حل پر زور دیا، انہوں نے سرحدوں کی بندش سے ہونے والے معاشی اثرات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے حکومتوں کو تو فرق نہیں پڑتا لیکن دونوں اطراف کے تاجروں کو نقصان پہنچتا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ہماری کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ مشکلات پیش نہ آئیں لیکن پاکستان کی پالیسیاں آئے دن تبدیل ہوتی رہتی ہیں، ایک آتا ہے تو اپنی پالیسی لاتا ہے اور دوسرا آتا ہے تو وہ اپنی پالیسی لے آتا ہے لیکن ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سرحدی معاملات اور تجارت کو سیاست سے دور رکھا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان شکایات کو مناسب فورم پر بیان کرے تاکہ مناسب حل نکالا جا سکے، بارڈر کی بندش سے تاجر متاثر ہوتے ہیں، پھلوں وغیرہ سے بھری سینکڑوں گاڑیاں رک جاتی ہیں اور پھل خراب ہو جاتے ہیں، اسے طرح پاکستان سے آنے والی ادویات اور غذائی اجناس بھی خراب ہو جاتی ہیں اس لئے پاکستان سرحد کے معاملات کو کو سیاست سے دور رکھے۔
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق دونوں اطراف کے مشران بات چیت سے حل نکال سکتے ہیں لیکن بارڈر بند کرنا، گاڑیاں بند کرنا، بندرگاہ پر سامان کو روک دینا اور آئے دن نئی پالیسیاں نقصان دہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تجارت اور سرحدی معاملات کو سیاست سے الگ رکھنے کی کوشش کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ پاکستان بھی ایسا ہی کرے گا۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں کابل میں طالبان کی واپسی کے بعد سے، پاکستان کے اندر دہشت گرد حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جس سے اسلام آباد میں مایوسی پائی جاتی ہے، رواں سال کے پہلے پانچ ماہ میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں 83 فیصد اضافہ دیکھا گیا جس کی وجہ سے پاکستانی حکام کو عسکریت پسند گروہوں کے خلاف نئی مہم شروع کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔