آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے بعد دنیا کیسے بدل رہی ہے؟  اے آئی کیسے انقلاب لا رہی ہے؟

مصنوعی ذہانت کا تعارف

آرٹیفشل انٹیلی جنس سے مراد کمپیوٹر یا کمپیوٹر کی مدد سے بنایا گیا کنٹرول روبوٹ کی وہ صلاحیت ہے جو انتہائی ذہین انسانوں سے وابستہ کاموں کو کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی صلاحیت ہے جس کی مدد سے ہم بہت قلیل مدت میں اپنے کام کوایکو ریسی کے ساتھ سرانجام دے سکتے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کے باعث ڈیجیٹل کمپورٹر نے دنیا میں انقلاب برپا کیا اور پھر سائنسدانوں نے اس کمپیوٹر کو اپنے مشکل ترین تجربات کو کرنے کیلئے اس صلاحیت سے استفادہ کیا۔اب اس Artificial Intelligence کی مدد سے انقلاب برپا ہونے جارہا ہے۔

اس صلاحیت کی مدد سےبہت سے کاموں کو کرنے میں آسانی ہو گئی ہے ۔ جیسے کہ کسی بھی مشکل الفاظ کے معانی تلاش کرنے ،استدلال کرنے،تشہیر کرنے یا ماضی کے تجربے سے سیکھنے کی صلاحیت، انیسویں صدی کی چند دہائیوں میں ڈیجیٹل کمپیوٹرمیں بے بہا ترقی سے یہ ثابت ہوگیا کہ کمپیوٹرز کو بہت ہی مشکل اور پیچیدہ کاموں کو انجام دینے کے لیے پروگرام کیا جا سکتا ہے — جیسے کہ ریاضی کے انتہائی مشکل تھیورمز کو ثابت کرنا  اسی طرح انتہائی چلاقی اور مہارت کے ساتھ شطرنج کھیلنا۔یہ سب اب آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے کیا جارہا ہے ۔

مگر تعجب اس بات پر ہے کہ کمپیوٹر کے پروسیسنگ کرنے کی رفتار اور اس کی یاداشت کی صلاحیت میں مسلسل اضافے کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا پروگرام نہیں بن پایا جو ہے جو وسیع تر ڈومینز پر یا روزمرہ کے علم کی ضرورت کے کاموں میں مکمل انسان کا مقابلہ کر سکے۔بہر حال  سائنس نے اتنی ترقی تو کر لی ہے کہ پروگراموں نے بعض مخصوص کاموں کو انجام دینے میں ماہرین اور پیشہ ور افراد کی کارکردگی کی سطح حاصل کر لی ہے۔

آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے اب طبی تشخیص، کمپیوٹر سرچ انجن، آواز یا لکھائی کی شناخت جیسی متنوع ایپلی کیشنز  بن چکی ہیں جو بہترین کام کررہی ہیں اورماہرین اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

How is the world changing after Artificial Intelligence Technology? Explained in Urdu

 مصنوعی جنرل انٹیلی جنس  منافع بخش

انسان جیسے جیسے ترقی کرتا چلا جارہا ہے اس نے اپنی آسانی کیلئے  مشین در مشین بنانے کی کوشش کی ۔اب ماہرین اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں وہ اب  ایسا روبوٹ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو کہ انسان کی طرح کام کرتا ہےجسے جو بھی حکم دیا جائے وہ ایسے ہی پرفارم کرتا ہے ۔

سب سے بڑا فائدہ یہ ہورہا ہےانسان کام کر کے تھک جاتا ہے مگر روبوٹ کام کرنے سے تھکتا نہیں ۔ اسی دہائی کے دوران مصنوعی ذہانت پروگراموں میں کامیابی سے ماہرین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ بہت جلد سائنس فکشن دنیا میں ایک حقیقت بن سکتا ہے۔ 

Nvidia جو کمپیوٹر چپس بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے اس کے مال جینسن ہوانگ کا کہنا ہے کہ ان کے منافع میںہائی ٹیک چپس کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے جو مصنوعی ذہانت ماڈلز کو تربیت دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

اس طرح مصنوعی ذہانت  کاروبارکوفروغ دینے کے لیے اچھا ہے، مسٹر ہوانگ نےاس بات کی بھی تصدیق کی کہ مصنوعی ذہانت ایک ایسا پروگرام ہے جس کی مدد سے بعض ٹیسٹوں میں ماہرین سے بھی 8 فیصد بہتر کر سکتا ہے۔

امریکہ کا F-16 طیاروں میں مصنوعی ذہانت کا استعمال

امریکہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں یقیاً آنے بڑھ رہا ہے اور کئی طرح کے نت نئے تجربات کرنے میں مصروف عمل ہے ۔امریکہ اپنی دفاعی صلاحیت کو مزید بڑھانے اور دفاعی ساز و سامان کو دوسرے ملکوں کو فروخت کر کے زرمبادلہ کمانے کی دوڑ میں بہت آگے جارہا ہے ۔

امریکہ کی فضائیہ آرٹیفشل انٹیلی جنس کو اپنےدفاعی ہتھیاروں میں استعمال کرنے میں اہم پیش رفت کر رہی ہے۔حال ہی میں امریکہ نے  F-16 لڑاکا طیارے کے لیے آرٹیفشل انٹیلی جنس کو کنٹرولر کے طور پر استعمال کرنے کے لیے تجربات کیے ہیں۔

امریکہ نے ہزار کے قریب لڑانے طیاروں میں یہ سسٹم لگانے کی تیاری کر لی ہے جو فوجی ٹیکنالوجی میں ایک اہم ترقی کی نشاندہی کرتا ہے۔امریکی وزیر دفاع نے کچھ عرصہ قبل آرٹیفشل انٹیلی جنس کو اپنے ایف -16طیاروں میں استعمال کرنے کی کوشش کی ۔وہ مظاہرے کے لیے طیاروں میں سے ایک میں سوار ہوئے اور ان طیاروں کو آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے کنٹرول کیا گیا اور باحفاظت اپنی منزل تک پہنچایا گیا ۔

سکیورٹی کی وجوہات کے باعث یہ کام کافی خفیہ رکھا گیا مگر پھر بھی اس کا چرچہ کیا گیا۔ دسمبر 2022 میں فلائٹ ٹیسٹنگ شروع کی تھی۔ اس کے پہلے تجربے کا مقصد ایئر فورس کے فلیگ شپ فائٹر جیٹ میں سے ایک کو کنٹرول کرنے میںآرٹیفشل انٹیلی جنس کی صلاحیتوں کا جائزہ لینا تھا۔ ایک گھنٹہ طویل پروازکی مشق کی گئی جو کہ کامیاب رہی جسے مستقبل کی فضائی لڑائی میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کیا۔

ایک لڑاکا جیٹ پائلٹ کے طور پرآرٹیفشل انٹیلی جنس کا امکان بہت سے فوائد دیتا ہے، سیکورٹی، بجٹ اور حکمت عملی کے حوالے سے غور و فکر سب سے اہم ہے۔ انسانوں کی مدد سے چلنے والے ہوائی جہازوں کے اعلیٰ اخراجات آرٹیفشل انٹیلی جنس انضمام کی فوری ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔

اگر یہ جہاز بغیر پائلٹ کے چلیں تو نقصانات کے اندیشہ بہت کم ہو جاتا ہے،چین بغیر پائلٹ کی گاڑیوں کی دوڑ میں امریکہ سے بہت آگے نکل گیا ہے یہی وجہ سے کہ امریکہ اس بات کو تسلیم بھی کرتا ہے ۔جس رفتار سے امریکہ اس صلاحیت پر کام کررہا ہے مستقبل قریب میں وہ آگے نکلنے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔

امریکہ آرٹیفشل انٹیلی جنس کنٹرول والے لڑاکا طیارے بنانے کے اپنے منصوبوں پر ثابت قدم ہے، جو فوجی ہوا بازی میں ایک اہم سنگ میل ہے۔

اب آپ کا چیک اپ آرٹیفشل انٹیلی جنس ڈاکٹر کریگا۔

آرٹیفشل انٹیلی جنس کو میڈیکل کے شعبہ میں بہت استعمال کیا جارہا ہے یقیناً اسے بڑے پیمانے پر رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے۔مگر مستقبل قریب میں یہ اس شعبہ میں بھی انقلاب آنے والا ہے ۔ اب آپ کو ایک انسانی ڈاکٹر کی بجائے ایک روبوٹ ڈاکٹر جو آرٹیفشل انٹیلی جنس کی بنیاد پر کام کررہا ہو گا جو کہ نہ صرف آپ کا معائنہ کریگا بلکہ پوری تشخیص بھی کریگا۔

بہتر تشخیص، مریضوں کے لئے ذاتی مدد، منشیات کی تیز تر دریافت، بہترین کارکردگی غرض ہر معاملات میں مصنوعی ذہانت (AI) اپنی کارکردگی ظاہر کررہی ہے، یورپ کے تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ آرٹیفشل انٹیلی جنس کی تعیناتی سے ہر سال لاکھوں جانیں بچ سکتی ہیں۔

امریکہ کے ماہرین کا کہنا ہے آرٹیفشل انٹیلی جنس سے نہ صرف پیسہ بچایا جا سکتا ہے  بلکہ کسی بھی کام کرنے کی کارکردگی کو بھی بہترکیا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں مجموعی طور پر سالانہ طبی اخراجات سےہزاروں ڈالر بچائے جارہے ہیں۔ سمارٹ سٹیتھوسکوپس اور روبوٹ سرجن سے لے کر بڑے ڈیٹا سیٹس کے تجزیہ تک میڈیکل آرٹیفشل انٹیلی جنس سے کام لیا جارہا ہے۔اور مستقبل قریب میں مریضوں کے آپریشن کے لیے روبوٹ سرجن کام کرینگے ۔

اب پوری دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے اندر جدید ٹیکنالوجی پر کام کیا جارہا ہے اور میڈیکل کا شعبہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں آرٹیفشنل انٹیلی جنس کی بہت ضرورت پیش تھی کیونکہ ڈاکٹروں اورسرجن کی نالائقی کی وجہ سے ہزاروں مریض موت کے منہ میں جارہے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا نظام بنایا جاتے جس کی مدد سے ان کمزوریوں کو دور کیا جائے ۔

اسی ضرورت کے پیش نظر ماہرین اور سائنسدانوں نے ایک ایسا نظام بنانے کیلئے تگ ودو کی جس میں بالآخر و ہ کامیاب ہوتے د کھائی دے رہے ہیں ۔آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے اب ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ نظام تشخیصی درستگی اور بیماریوں سے باخبر رہنے، مریضوں کے  میڈیکل ٹیسٹوں کے نتائج کی پیشن گوئی کو بہتر بنانے اور بہتر علاج تجویز کر سکتے ہیں۔

 یہ ہسپتالوں اور سرجریوں میں میڈیکل ٹرانسکرپشن اور مریضوں کی نگرانی جیسے کاموں کے علاوہ اب نتظامیہ کی بھی کارکردگی کو بڑھا سکتا ہے۔ اگرچہ  آرٹیفشل انٹیلی جنسکئی سالوں سے صحت کی دیکھ بھال میں استعمال ہو رہی ہے مگر اب ماہرین کی مدد سے اس نے صحت کے شعبہ میں انقلاب برپا کر دیا ہے ۔

اگر ٹیکنالوجی ہی سب کچھ حل کر دے تو انسان کیا کرے گا؟

  جب ٹیکنالوجی نے انسانیت کےتمام دیرنہ اور پیچیدہ مسائل حل کر دیے ہیں تو کیا کرنا باقی رہ گیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک فلاسفر نک بوسٹروم کی تحریر کردہ کتاب(Deep Utopia) میں کیا گیا جس میں اس نے دلیل دی کہ انسانوں کواس دنیا میں اگلے 100 سالوں میں نقصانات کی 6 بڑی وجوہات موجود ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ اس کی ترقی ہے ۔

 مصنوعی ذہانت کی خطرناک شکلوں کی مسٹر بوسٹروم نے اپنی تحریرکا موضوع بنایا ہے، انہوں نے دعوی کیا ہے کہ اگر اگر  آرٹیفشل انٹیلی جنس کا نظام غیر معمولی طور پر ٹھیک ہو جائے تو ٹیکنالوجی اس مقام تک ترقی کر رہی ہے کہ یہ اقتصادی طور پر تمام قیمتی کام تقریباً صفر لاگت پر کر سکتی ہے۔

انہوں نے تویہاں تک انکشاف کر دیا کہ آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے وہ کام بھی کیے جا سکتے ہیں جنہیں انسان سوچ سکتے ہیں۔صرف چند ماہ قبل ChatGPT اور OpenAIکے چیٹ بوٹ کی ریلیز نے ایک آرٹیفشل انٹیلی جنس جنون کا آغاز کیا۔ آج اس کے اختیارات سب کیلئے عام ہو چکے ہیں۔ کئی فرموں (جیسے اینتھروپک، گوگل اور میٹا) نے اس کے بعد سے اپنے اپنے ماڈلز (کلاڈ، جیمنی اور لاما) کے ورژن متعارف کرائے ہیں، جو مختلف طریقوں سے ChatGPT کو بہتر بنا رہے ہیں۔

کم بیش دو تین ماہ میں Anthropic نے Claude-3 کو لانچ کیا، جس نے مختلف لیڈر بورڈز پر OpenAI اور Google کے پچھلے ٹاپ ماڈلز کواپ ڈیٹ کیا اوران کی کارکردگی کو بہترین بنایا۔ 9 اپریل کو  OpenAI نے اپنے ماڈل میں تبدیلی کی ۔ 18 اپریل کو میٹا نے لاما 3 جاری کیا، جس کے ابتدائی نتائج بتاتے ہیں کہ یہ اب تک کا سب سے زیادہ قابل اوپن ماڈل ہے۔

امکان ہے کہOpenAI  اس سال کسی بھی وقت اسپلش کرے گا جب یہ GPT-5 جاری کرے گا، جس میں کسی بھی موجودہ بڑے لینگویج ماڈل (LLM) سے آگے کی صلاحیتیں ہوسکتی ہیں۔ اگر افواہوں پر یقین کیا جائے تو ماڈلز کی اگلی نسل اس سے بھی زیادہ قابل ذکر ہوگی ۔

غزہ میں اسرائیل کی جانب سےمصوعی ذہانت استعمال

ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے عسکری ماہرین، وکلاء اور اخلاقیات کے ماہرین اس سوال سے دوچار ہیں کہ مہلک خود مختار ہتھیاروں کے نظام کو کیسے کنٹرول کیا جائے، جسے بعض اوقات مجرمانہ طور پر قاتل روبوٹ کہا جاتا ہے۔ ایک سوال کا جواب یہ بھی تھا کہ ’’آدمی کو لوپ میں رکھا جائے‘‘۔

 آرٹیفشل انٹیلی جنس ٹیکنالو جی کی مدد سے ایک شخص ’’بغیر علمی وضاحت یا آگاہی کے، کمپیوٹر سے اشارے کے جواب میں ‘فائر بٹن دباتا ہے اور فائر ہو جاتا ہے ۔اسی ٹیکنالوجی کی مدد سےغزہ میں اسرائیل کی جانب سےاسلحہ کے استعمال کودیکھا گیا ہے ۔ اسرائیل کی فوج میں موجود افسران کا ٹیکنالوجی پر کافی کنٹرول حاصل ہے ۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے مبینہ طور پر مصنوعی ذہانت کے ٹولز تیار کیے ہیں جنہیں’’انجیل‘‘او’’لیوینڈر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے تاکہ حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد، دو عسکریت پسند گروپوں کے مشتبہ کارندوں کو بمباری کے اہداف کے طور پر نشانہ بنایا جا سکے۔ سسٹم سے واقف اسرائیلی افسران اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے غزہ میں مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔

AI in urduAI TechnologyAI Technology in urduArtificial Intelligence TechnologyArtificial Intelligence Technology in urdu