پاکستان میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی خیل جو کہ 25 اکتوبر 2024 کو ریٹائر ہو رہے ہیں کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، چیف جسٹس کی ایکسٹیشن کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہے اس فیصلے سے جہان پاکستان کے طاقت ور حلقوں کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں وہیں ایکسٹیشن کی صورت میں پاکستان کو اس فیصلے کے منفی اثرات سے بھی گزرنا ہو گا۔
اس آرٹیکل میں ہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے کردار، ان کی ایکسٹیشن کے حوالے سے پاکستانی عوام میں پائی جانے والی بے چینی، قانونی معاملات، بار ایسوسی ایشنز اور سیاسی جماعتوں کے سٹینڈ کے ساتھ فیصلے کے ممکنہ اثرات پر جائزہ پیش کریں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی شخصیت اور کردار پر ایک نظر
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی خیل کی شخصیت اور کردار کے حوالے سے عوام میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں، قاضی فائز کو جسٹس منیر کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور جسٹس منیر کے بعد قاضی فائز کو پاکستانی عدلیہ کا سب سے متنازعہ چیف جسٹس قرار دیا جاتا ہے اور ان کے بارے میں رائے پائی جاتی ہے کہ چیف جسٹس مقدر حلقوں کے منظور نظر شخص ہیں اور ان کے بیشتر فیصلوں میں اس کے اثرات بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔
قاضی فائز وہ چیف جسٹس ہیں جن کے دور میں فارم 47 کے ذریعے پاکستان کے جنرل الیکشن کو ہائی جیک کر کے مرضی کی حکومت بنائی گئی جو کہ ایک تاریخی واقعہ ہے، جب بھی تاریخ میں اس انتخابی دھانلی کا ذکر ہو گا تو قاضی فائز کا نام اس کے ساتھ ضرور نتھی ہو گا۔
چیف جسٹس بننے کا مرحلہ
ہم شروعات سے قبل یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے سے قبل مخصوص سیاسی جماعتوں اور طاقت ور حلقوں کی جانب سے قاضی فائز کی باقاعدہ امیج بلڈنگ کی گئی تھی اور سوشل میڈیا سمیت مین سٹریم میڈیا میں "ظالموں قاضی آ رہا ہے” کے ٹرینڈ چلائے گئے تھے۔
What is going to happen in Pakistan About the Chief Justice’s Extension?بہرحال یہ فیصلہ آج تک نہیں ہو سکا کہ ظالم کون تھا اور یہ کس کو کہا جا رہا تھا کیونکہ چاہے وہ سیاست ہو یا معیشت، معاشرت ہو یا نظامت، کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی البتہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کو برے طریقے سے ضرور کچلا گیا اور ساتھ ہی 8 فروری کے انتخابات میں رائے دہندگان کے فیصلے کو بھی انتہائی بھونڈے طریقے سے کچل دیا گیا۔
یہ فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ ظالم کون تھا اور مظلوم کون؟
چیف جسٹس بننے سے پہلے اور بعد کے متضاد بیانات
قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے سے قبل انہوں نے خود اور مخصوص حلقوں کی جانب سے ان کی بطور اینٹی اسٹیبلشمنٹ امیج بلڈنگ کی گئی لیکن چیف جسٹس بننے کے بعد ان کے کردار میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھی گئی اور وہ ہر اس فیصلے میں اشرافیہ کے ساتھ کھڑے نظر آئے جو عوام سے متعلق تھا۔
قاضی فائز عیسی کے متنازعہ فیصلے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کے عین وقت میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو سیاست سے مائنس کر کے تاریخ کا ایک بدترین فیصلہ سنایا جبکہ کچھ دیگر متنازعہ فیصلوں کی فہرست درج ذیل ہے:
- سزا یافتہ جرائم پیشہ افراد کی تا حیات نااہلی کی سزا کا خاتمہ
- پاکستان تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین لینا
- لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کو بغیر کسی سزا و جزا کے فارغ کر دینا
- قادیانیوں کو ان کے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دینے کا فیصلہ
- 9 مئی واقعات کی آڑ میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کو نظر انداز کرنا
- جنرل الیکشن میں دھاندلی کے کیسز کو التوا میں ڈال کر نظر انداز کرنا
- مخصوص نشستوں کے کیسز کو التوا میں ڈال کر حکومت کو دو تہائی اکثریت دلوا کر اپنی ایکسٹیشن کے لئے آئین میں ترمیم کی راہ ہموار کرنا۔
میڈیا کی آزادی پر قدغن کے واقعات
چیف جسٹس قاضی فائز کے دور میں اظہار رائے کی آزادی کے قانون کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئی ہیں اس کی مثال بھی تاریخ میں نہیں ملتی، تمام مین سٹریم میڈیا پراپرٹی ٹائیکونز اور کاروباری حضرات کے قبضے میں ہیں اور ان پر حکم اوپر والوں کا چلتا ہے، نہ تو مخصوص سیاسی جماعتوں اور نہ ہی مخصوص دانشور حضرات یا صحافیوں کو مین سٹریم میڈیا میں وقت دینے کی آزادی ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے نیوز پروگرام کرنے کی اجازت ہے۔
اس کے ساتھ قاضی فائز کے دور میں جس طرح صحافیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ بھی در خور اعتنا نہیں کیا جا سکتا، صحافیوں کی گرفتاریاں، گمشدگیاں، اغوا اور تشدد سمیت قتل کے واقعات بھی قاضی فائز عیسی کے دور میں ہو رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ کا اس حوالے سے کوئی سٹینڈ سامنے نہیں آیا۔
معروف کہاوت ہے کہ مظلوم کے حق میں آواز نہ اٹھانا بھی ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے اور آزادی اظہار رائے پر چیف جسٹس کی کوتاہ نظری انہیں ظالموں کی صفوں میں لا کر کھڑا کرتی ہے۔
انسانی حقوق کی پامالیاں
قاضی فائز عیسی کے دور میں پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے بدترین واقعات دیکھے گئے، ہزاروں سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، سینکڑوں خواتین کو بے گناہ اور جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں ڈال دیا گیا، عدلیہ کے فیصلوں پر عملدر آمد میں پس و پیش کیا گیا، بدترین ٹارچر، تشدد، اغوا اور قتل کے واقعات دیکھے گئے۔
آزادی اظہار رائے پر بدترین پابندیاں دیکھی گئیں، بات کرنے کے شہری حقوق کو غصب کیا گیا، مقدمات اور گرفتاریاں کی گئیں۔
اپنے حقوق کے لئے شہریوں کے احتجاج اور مظاہروں کے آئینی، قانونی و جمہوری حقوق کو برے طریقے سے روندا گیا، دوران احتجاج بدترین تشدد، گرفتاریوں اور ناجائز مقدمات کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔
قاضی فائز عیسی کے دور میں دوران الیکشن مخصوص سیاسی جماعت اور امیدواروں کو سیاست میں حصہ لینے سے انتہائی بھونڈے طریقے سے روکنے کی کوششیں کی گئیں، کاغذات چھینے گئے، امیدواروں کی گرفتاریاں، اغوا اور سیاست سے دستبرداری کروائی گئی۔
سیاست دانوں سے جبری پریس کانفرنس کروا کر سیاست چھڑوانے سے سمیت ہر ممکن طریقے سے بنیادی انسانی حقوق جو کہ آئین پاکستان میں درج ہیں کو پامال کیا گیا۔
چیف جسٹس فائز عیسی کی سرپرستی میں اعلی عدلیہ نے انسان حقوق کی پامالی کے ان سارے واقعات میں چپ کا روزہ رکھ کر طاقت ور حلقوں کو کھلی چھوٹ دیئے رکھی۔
آئین پاکستان کے تحت چیف جسٹس کی تقرری کا عمل
آئین پاکستان کے تحت صدر پاکستان آرٹیکل 175 اے کے مطابق چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کا تقرر کرتے ہیں جبکہ آرٹیکل 179 کے تحت کسی بھی جج کی عمر کی حد 65 سال مقرر ہے، آرٹیکل 179 کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز 65 سال کی عمر تک اپنے عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں جب تک کہ وہ خود استعفیٰ نہ دے دیں یا پھر آئین کے مطابق انہیں عہدے سے ہٹا نہ دیا جائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی 25 اکتوبر 2024 کو 65 سال کے ہونے کے بعد آئینی طور پر ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں، قاضی فائز کی ایکسٹیشن کے لئے ضروری ہے کہ اس آئینی شق میں ترمیم کر کے عمر کی حد کو بڑھا دیا جائے جس کے لئے شہباز حکومت کی کابینہ کے اجلاس میں آئینی مسودے کے جائزے کے لئے کمیٹی بنائی گئی تھی۔
آئینی ترمیم کے لئے اسمبلی میں نمبرز کی صورتحال
چیف جسٹس کے مخصوص نشستوں کے کیس کو نظر انداز کرنے کے بعد مقتدر حلقوں نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کو حکمران اتحاد میں بانٹ دیا تھا جس کے بعد حکمران اتحاد کو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی تھی۔
مخصوص نشستوں کی بندر بانٹ کے بعد حکمران اتحاد کو 229 کا نمبر ہو گیا جسکے بعد اتحاد مزید مضبوط ہو گیا جبکہ قومی اسمبلی کی ٹوٹل نشستوں کی 336 ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کی حد 224 نشستیں ہیں۔
حکمران اتحاد میں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن 123 نشستوں کے ساتھ پہلے، پاکستان پیپلز پارٹی 73 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان [ایم کیو ایم] 22 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
پارلیمانی کی نمبر گیم کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی و اتحادیوں کی جانب سے اس آئینی ترمیم کو روکنے کی کوئی بھی کوشش مدد گار ثابت ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے اور اگر اپوزیشن سپریم کورٹ جاتی ہے تو وہاں ایکسٹیشن کے امیدوار قاضی فائز عیسی خود پی ٹی آئی کو ہینڈل کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوں گے۔
بہر حال پاکستان تحریک انصاف کی آخری امید سپریم کورٹ آف پاکستان ہے جہاں پر مخصوص نشستوں کے کیس پر آخر کار سماعت شروع ہو گئی ہے اور آج تین رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے، پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ سے انصاف مل جاتا ہے اور پارلیمان میں نمبر گیمز تبدیل ہونے کے ساتھ سات پارلیمنٹ کے انتخابات بھی کالعدم ہو جائیں گے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے ایکسٹینشن کے حوالے سے خدشات
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان جو کہ اس وقت متنازعہ کیسز اور فیصلوں پر اڈیالہ جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں کا ماننا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی لندن پلان کے ایک اہم مہرے ہیں، نواز شریف کی واپسی کا فیصلہ چیف جسٹس کے منصب سنبھالنے سے تھا اور جیسے ہی قاضی فائز چیف جسٹس بنے نواز شریف نے واپسی کا سفر باندھ لیا۔
Read More: میرے قتل کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا لیکن مجھے موت کا کوئی خوف نہیں، عمران خان
واضح رہے کہ نواز شریف عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم اور اشتہاری تھی لیکن جیسے ہی وہ واپس آئے تو ان کی سزائوں پر نہ صرف انہیں ریلیف مل گیا بلکہ ایک اہم کیس میںِ چیف جسٹس کی جانب سے ایسا فیصلہ دیا گیا جس سے نواز شریف کی تاحیات نا اہلی بھی ختم ہو گئی اور وہ چند ماہ کے اندر سزا یافتہ نا اہل مجرم سے وزیراعظم پاکستان کے امیدوار بن گئے۔
عمران خان نے اڈیالہ جیل میں اپنے کیسز کی سماعت کے دوران میڈیا سے گفتگو میں متعدد بار چیف جسٹس پر تنقید کی اور ایک بار انہیں قرآن پاک کی کچھ آیات کا حوالہ دے کر انصاف کے راستے پر چلنے کی تجاویز بھی دیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا ایکسٹیشن پر ردعمل اور سٹینڈ
پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف چیف جسٹس کی ممکنہ ایکسٹیشن پر کھل کر سامنے آئی ہے اور چیف جسٹس کی ایکسٹیشن اور اس ایکسٹینشن کے لئے ہونے والی قانون سازی پر اپنی مزاحمت دکھا رہی ہے۔
تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کو ایک سیاسی جماعت کو سیاست سے مائنس کرنے اور مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی سہولت کار پر رشوت کی صورت میں ایکسٹیشن کا معاوضہ دیا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماء اسد قیصر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی ایکسٹیشن کے لئے ایک کمیٹی مجوزہ آئینی ترمیم پر کام کر رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسی کسی بھی قانون سازی کو پارلیمان میں قبول نہیں کریں گے، ان کا کہنا تھا نہ تو ہم حکومت کو آئین و قانون اور عدالتی نظام سے کھیلنے کی اجازت دینگے اور نہ ہی دیگر ججز کے حقوق کو سلب کرنے دیں گے۔
سینئر صحافی تنویر اعوان کی چیف جسٹس کی ایکسٹیشن پر رائے
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی تنویر اعوان کا ایکسٹیشن کے حوالے سے مارچ نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایکسٹینش کا قانون سِرے سے ہی غلط اور حقوق العباد کے ساتھ صریحاً ظُلم کے مترادف ہے، جو اپنا "ایک اچھا نائب” تیار نہ کر سکے وہ کیسے ایک لائق اور قابل تقلید و مثال انسان ہو سکتا ہے کہ اس کو دوبارہ موقع دیا جائے۔
تنویر اعوان نے سوال اٹھایا کہ جو شخص معاشرے کے لئے بہتر کردار ادا نہیں کر سکا اس پر کیسے یقین کر لیں کہ اسے ایک بار اور دی جائے گی تو وہ معاشرے کے لئے بہترین ثابت ہو گا؟
تنویر اعوان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں افواجِ پاکستان میں ایکسٹیشن کی روایت کو بار بار دُہرایا گیا ہے لیکن اس روایت کے نتائج ہمیشہ منفی ہی ثابت ہوئے، ایوب خان کے دور سے جنرل عاصم منیر تک بہت سے قابل اور اہل جرنیلوں کے حقوق متاثر ہوئے اور ان کے COAS بننے کا حق سلب ہوا۔
تنویر اعوان نے کہا کہ اب عدلیہ میں بھی کسی اور طرح سے ایکسٹیشن کی یہ روایت دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے نتائج پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے بھیانک ثابت ہونگے، جنگی اور ایمرجنسی حالات کے سوا ایکسٹینش کا آپشن اپنانا انسانی حقوق کی پامالی کے علاوہ دیگر اہل انسانوں کو اللہ کی دی گئی صلاحیتوں کے انکار اور انہیں ناقابل قبول قرار دیئے جانے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں نہ تو جمہوری روایات کا احترام ہے اور نہ ہی آمریت کے مروجہ اصولوں کی پاسداری، ملک و قوم نیم آمرانہ اور نیم جمہوری پاٹوں کے درمیان پِس کر رہ گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی آئین و قانون کے بنائے جانے کے پسِ پردہ مقاصد میں اگر بجائے ملک و قوم کے شخصیات کے مقاصد وابستہ ہوں، خاص یا خواص کو فائدہ پہنچانا مقصود ہو یا نیا قانون کچھ مدت کے بعد قابلِ عمل نہ ہو تو یہ ہر لحاظ سے قومی اقدار کو پامال کرنے والی بات ہے، دوسرے معنوں میں اس عمل کو ملک و قوم سے عین غداری کا عمل بھی کہا جا سکتا ہے۔
تنویر اعوان کے مطابق ریاستی آئین کے مطابق مُقتدر اعلٰی چونکہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے تو بدنیتی پر مبنی یا ذاتی فائدے کے لئے، یا کسی بھی خاص گروہ کے ذاتی مفادات کے تحت آئین و قانون میں کی جانے والی کوئی بھی تبدیلی صاف الفاظ میں اللہ رب العزت کی نافرمانی کے مترادف ہے۔
Legal Circles Concerned Over Chief Justice of Pakistan Qazi Faez Isa’s Extension Issueپاکستان کے اعلی قانونی حلقوں میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع اور اس کے لئے آئینی ترامیم کے بارے میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں، قانونی حلقوں کے مطابق اس فیصلے کا مقصد سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سوچ کے حامل ججز کو چیف جسٹس بننے سے روکنا ہے۔
اس حوالے سے سینئر وکیل ایڈووکیٹ میاں دائود کا کہنا تھا کہ ایکسٹیشن کی افواہیں پھیلا کر چیف جسٹس قاضی فائز پر دبائو ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کی رائے
طارق محمود کھوکھر کا ایکسٹیشن کے حوالے سے کہنا ہے کہ اس کے لئے یہ مناسب وقت نہیں ہے کیونکہ اس پارلیمان کو عوام کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا اور پارلیمانی میں ایک بڑی تقسیم کی وجہ سے یہ پارلیمان قانونی طور پر آئین سازی کرنے کا جمہوری اور اخلاقی اختیار نہیں رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی ترمیم کو سوشل میڈیا پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس عمل کو طاقت ور حلقوں کے مفادات کے تناظر میں دیکھا جائے گا، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ ایسی زہریلی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے بھی 22 ستمبر 1977 کو غیر قانونی پور آئین میں ترمیم کیں اور جسٹس یعقوب کی جگہ شیخ انوار کو چیف جسٹس تعینات کر کے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے کر آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل کیا۔
طارق محمود کا کہنا تھا کہ اس طرح کی آئین چھیر چھاڑ کے نتیجے میں ایک منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا، ہماری نوزائیدہ جمہوریت کا خاتمہ ہوا اور آمریت کی حکمرانی قائم ہوئی، پی سی او کے ذریعے ملک بھر میں اعلیٰ عدلیہ کا صفایا ہوا۔
طارق محمود کے مطابق ماضی میں آئین سے چھیڑ چھاڑ کی ایسی سازشیں ملک و قوم کے لئے تباہ کن ثابت ہوئیں، آج پاکستان جس طرح پولرائزیشن کا شکار ہے تو ایسی صورتحال میں ان سازشوں کے پہلے سے بدتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئر مین سید امجد شاہ کی رائے
سید امجد شاہ کے مطابق 2019 میں بھی حکومت چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا چاہتی تھی اور ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنا چاہتی تھی جس پر پی بی سی نے اس کی مخالفت کی تھی اور کنونشن بھی منعقد کئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم پارلیمان کا استحقاق ہے لیکن ایسی کسی بھی ترمیم پر ججز سمیت ہر کسی کو اس کے منفی اثرات کو بھگتنا ہو گا۔
پاکستان آرمی مدت ملازمت میں توسیع کی مثال دیتے ہوئے امجد شاہ کا کہنا تھا کہ اس طرح آرمی چیف کے عہدے کے لیے قطار میں کھڑے سیکڑوں لیفٹیننٹ جنرلز چیف آف آرمی اسٹاف بنے بغیر ریٹائر ہو گئے۔
ایڈووکیٹ ابوذر سلمان نیازی کی تشویش
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ ابوذر سلمان نیازی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر کے حوالے سے اگر کوئی آئینی ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو اس کا پی ٹی آئی کی ریزرو نشستوں کی موجودگی یا عدم موجودگی سے براہ راست تعلق ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے حوالے سے دائر درخواست ابھی تک سماعت کے لیے کیوں مقرر نہیں کی گئی؟
حامد خان پروفیشنل گروپ کی مخالفت
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ حامد خان کے وکلاء کے پروفیشنل گروپ کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت مین توسیع کے لئے کی جانے والی کوئی بھی قانون سازی مفادات کے براہ راست ٹکرائو کا سبب بنے گی۔
تاہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل (پی بی سی) میں اہم عہدوں پر فائز انڈیپینڈنٹ گروپ کے وکلاء کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلوں نے قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تقویت دی ہے۔
چیف جسٹس کی ایکسٹیشن کے ممکنہ نتائج
چونکہ پاکستان تحریک انصاف یا سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ طاقت ور حلقے قاضی فائز عیسی کو آئینی ترمیم کے ذریعے ایکسٹیشن دلوا سکیں گے یا نہیں، اگر پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں واپس مل جاتی ہیں تو یہ آئینی ترمیم ممکن نہیں ہو سکے گی اور قاضی فائز کا ایکسٹیشن کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر ایکسٹیشن مل گئی تو یہ صرف ابتدائی قدم ہو گا اور اس کے بعد بہت بڑے پیمانے پر پاکستانی عدلیہ میں تبدیلیاں کی جائیں گی اور ایسے تمام ججز کو کوئی بھی طریقہ اپنا کر ریٹائر یا فارغ کر دیا جائے گا جو کہ کسی بھی حوالے سے پاکستان کے طاقت ور حلقوں کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتے۔
Conclusion
طاقت ور حلقوں کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ جیسے طاقت ور حلقوں نے انتخابات میں دھاندلی کروا کر پاکستانی عوام کی منشاء اور مرضی کے بغیر ایک نا پسندیدہ حکومت تشکیل دی ہے اسی طرح وہ اپنی پسندیدہ عدلیہ بھی قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پاکستانی قوم اچھے افسران اور اچھی حکومت کی امید میں ظلم و ستم کی چکی میں اسی طرح پستے رہے ہیں۔
Informative
Kia hi kmal likha hai Faisal rubbani sahib aap jay
thank you so much, i am glade you like this article.