- وفاقی حکومت نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں بریت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں بریت کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا۔
یہ کیس ایک سفارتی پیغام سے متعلق ہے جس کے بارے میں ایف آئی اے نے سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ پر الزام لگایا ہے کہ اس دستاویز کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے واپس نہیں کیا جس کے بارے وہ طویل عرصے سے دعویٰ کر رہے تھے کہ امریکہ نے ان کی حکومت کو گرانے کے لئے اس دستاویز کے ذریعے دھمکی دی تھی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم کی گئی خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے سرکاری وکیل مقرر کرنے کے بعد جنوری میں عمران اور قریشی سائفر کیس میں 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے ثبوتوں کی عدم دستیابی کے سبب سزا کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے دونوں کو بری کر دیا تھا۔
Government of Pakistan challenged the acquittal of Imran Khan and Shah Mehmood Qureshi in the Cipher case in Supreme Court of Pakistan
حکومت کی جانب سے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ‘قومی سلامتی’ کے تناظر میں اس کیس کا جائزہ نہیں لیا، وزیراعظم شہباز کے ترجمان برائے قانونی امور بیرسٹر عقیل ملک نے فیصلے کے بعد میڈیا میں اعلان کیا تھا کہ استغاثہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرے گا۔
بیرسٹر عقیل کے اعلان کے مطابق آج سیکرٹری داخلہ کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں ایک درخواست جمع کروا کر چیلنج کر دیا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم من گھڑت دلائل، من مانے فیصلوں اور ریکارڈ پر موجود ثبوتوں کے منافی ہے لہذا اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں استغاثہ نے فیصلے کے خلاف اپنی اہم ترین دلیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کو اس کیس میں اپیل سننے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس بات کی بھی وضاحت نہیں کی کہ اس کے پاس اس کیس کو سننے کا اختیار بھی ہے کہ نہیں ہے لہذا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق نہیں دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران کیخلاف کارروائی کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، سائفر کیس کے فیصلے پر امریکہ کا رد عمل
درخواست میں کہا گیا کہ ایکٹ میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ پاکستان کے فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ 1958 کی دفعات اپیل دائر کرنے پر لاگو ہوتی ہیں۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ یہ قانون کا ایک طے شدہ اصول ہے کہ جہاں مقننہ نے قانون کی زبان میں کچھ فراہم نہیں کیا ہے، وہاں عدالت اپنے دائرہ اختیار سے باہر جا کر قانون میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتی، یہ عمل آئین پاکستان کے تحت عدالت کو حاصل اختیارات سے تجاوز ہو گا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ کا سائفر کیس کے دوران تعاون کا فقدان رہا اور ملزمان کی جانب سے کارروائی میں تاخیر کے لئے کوششیں کی جاتی رہیں، درخواست میں بتایا گیا ہے کہ ملزمان کی جانب سے اس کیس کے حوالے سے 65 متفرق درخواستوں پر ٹرائل کورٹ نے سماعت کی اور فیصلے کئے۔
ملزمان کی درخواست پر کئی بار سماعت ملتوی کی گئی، گواہ عدالت میں موجود رہے لیکن ملزمان کے وکلاء کی جانب سے ان سے جرح نہیں کی گئی تاہم ٹرائل کورٹ نے سرکاری خرچ پر ملزمان کو وکیل فراہم کیا جس کے بعد ٹرائل مکمل کیا گیا،
ایپل میں دلیل دی گئی ہے کہ یہ قانون کا طے شدہ اصول ہے کہ اگر کوئی عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ٹرائل منصفانہ طریقے سے نہیں ہوا تو قانون کے تحت فراہم کردہ واحد راستہ یہ ہے کہ مناسب موقع دینے کے لئے معاملے کو ٹرائل کورٹ کے حوالے کیا جائے، استغاثہ نے تمام ثبوت پیش کئے اور ملزمان کا اعتراف بھی اس کیس کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
استغاثہ نے اپنے فرانزک تجزیے کے ساتھ دستاویزی ثبوت بھی پیش کیے ہیں جن کی جرح کے دوران تردید نہیں کی گئی لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز ڈویژن بنچ نے ملزمان کو بری کرتے ہوئے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا، جس کے بعد یہ فیصلہ قانون کی نظر میں پائیدار نہیں رہتا ہے۔
حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے 3 جون کو دیئے جانے والے سائفر کیس میں بریت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سماعت کے لئے مقرر کی جائیں۔
سائفر کیس میں حکومت کے الزامات اور اہم نکات
- سائفر ایک سفارتی دستاویز ہے جو کہ اس وقت کے سیکرٹری خارجہ کو واشنگٹن سے موصول ہوا
- سائفر میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو عمران خان کی حکومت ختم کرنے کا حکم دیا گیا تھا
- سائفر میں عمران خان حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے نہ ہٹانے پر نتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی تھی
- سائفر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی
- سائفر کیس ایف آئی اے کی جانب سے ایف آئی آر درج کر کے قائم کیا گیا
- سائفر کیس آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی دفعات پر بنایا گیا
- سائفر کیس کا مقدمہ 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشتگردی میں درج کیا گیا
- سائفر کیس میں معلومات کو توڑ موڑ کر پیش کرنے اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے الزامات عائد کئے گئے
- سائفر کیس میں الزام عائد کیا گیا کہ عمران خان نے اپنی رہائش گاہ بنی گالا میں 28 مارچ 2022 کو ایک خفیہ اجلاس بلا کر سازش تیار کی
- خفیہ اجلاس میں پرنسپل سیکرٹری محمد اعظم خان کے ذریعے سائفر کے منٹس کو تیار کروایا گیا
- عمران خان نے سائفر کی کاپی غلط ارادے کے ساتھ پاس رکھ لی اور وزارت خارجہ کو واپس نہ کی
- عمران خان کی جانب سے سائفر کی کاپی تا حال وزارت خارجہ کو واپس نہیں کی گئی
- سائفر کے غلط استعمال سے سائفر کا سیکیورٹی نظام، پاکستانی مشنز اور پیغام رسانی کے خفیہ سسٹم کا طریقہ کمپرومائز ہوا
- عمران خان کے اقدامات سے بیرونی قوتوں کو فائدہ پہنچا اور ریاست پاکستان کا نقصان ہوا