اسلام آباد – گزشتہ دن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں الیکشن کیسز کے لئے 6 ٹربیونلز قائم کرنے کے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اپیل کی تھی کہ سپریم کورٹ کل ہی اس کیس کو سماعت کے لئے مقرر کرے، اپیل کو قبول کرتے ہوئے آج ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے 20 جون کو سماعت کے لئے مقرر کر دیا ہے۔
کیس کی سماعت کے لئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی سربراہی میں دو رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے، کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان ان کی معاونت کریں گے۔
الیکشن ٹربیونل کیس کا پس منظر
29 مئی کو پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ اور راؤ عمر ہاشم خان کی درخواستوں پر سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 219 (سی) اور آرٹیکل 222 (بی) کے تحت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 140 کے تحت الیکشن ٹربیونلز کی تقرری کا اختیار اور برتری رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں اختیارات کی جنگ، الیکشن ٹربیونلز سپریم کورٹ میں چیلنج
12 کو جون لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم کے فیصلے کی روشنی میں چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے 8 ٹربیونلز بنانے کے احکامات جاری کئے تھے جن میں 6 نئے ٹربیونلز کے علاوہ دو ٹربیونلز کو ملحقہ علاقے دوبارہ تفویض کر دیئے گئے تھے جبکہ الیکشن کمیشن نے 12 جون کے فیصلے کو بے معنی قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کرنے کا پس منظر
گزشتہ دن الیکشن کمیشن نے ایڈووکیٹ سکندر بشیر مہمند کے ذریعے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا ٹربیونلز کے سربراہان ججز کی تقرری کا حتمی فیصلہ ہائیکورٹ کا ہے یا الیکشن کمیشن کا؟
4 اپریل کو لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کے لئے 6 ججز کے نامزد کئے، الیکشن کمیشن نے دو کا نوٹیفکیشن جاری کر کے راولپنڈی اور بہاولپور کے لئے مزید ججز کے نام طلب کر لئے جس جواب میں لاہور ہائیکورٹ نے اعتراض اٹھایا کہ پہلے کبھی ججز کی تقرری کے لئے نام نہیں مانگے گئے اور مطالبہ کیا گیا کہ چیف جسٹس کے نامزد کردہ ججز پر مشتمل الیکشن ٹربیونلز کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کیا جائے۔
Understanding Election Tribunal Issue and How Chief Justice of the Supreme Court of Pakistan Qazi Faez Isa Turns the Impossible into Possible?
جواب میں الیکشن کمیشن نے بجائے نوٹیفکیشن جاری کرنے کے اعتراض لگایا کہ فیصلے کو قبول کرنے سے یہ مطلب اخذ ہو گا کہ ٹربیونلز کا تقرر چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے ساتھ بغیر مشاورت کے کیا تھا جو کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 140 (3) کی خلاف ورزی ہے۔
2018 کے واقعات کچھ واقعات کے تناظر میں الیکشن کمیشن نے درخواست میں دعوی کیا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تقرریوں میں ای سی پی کو نہ صرف فوقیت حاصل ہے بلکہ پہلے بھی تقرریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا ہے کہ 1977 میں ہائی کورٹ کے 41 ججز کو الیکشن ٹربیونلز کے لیے نامزد کیا گیا جبکہ الیکشن کمیشن نے ان میں سے صرف 8 کا تقرر کیا تھا، اسی طرح 1985 میں 5 ججز نامزد کئے گئے لیکن کسی کی بھی تقرری عمل میں نہیں لائی گئی، 2002 میں 14 ججز کی سفارش کی گئی اور صرف 7 کو نوٹیفائی کیا گیا، 2013 میں 61 ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نامزد کئے گئے جن میں سے الیکشن کمیشن نے صرف 5 کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
چیف جسٹس نے ناممکن کو ممکن بنا دیا
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ٹربیونلز کے جس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے وہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ ہے جبکہ سنگل بینچ کے فیصلے کو ڈائریکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
ہائیکورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے پر اعتراض ہو تو اس کے لئے طریقہ کار کے مطابق ہائیکورٹ میں ہی انٹرا کورٹ اپیل دائر کر کے اعتراض دائر کیا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس نے خلاف قانون کیس کو نہ صرف سماعت کے لئے منظور کیا بلکہ اپنی سربراہی میں دو رکنی بینچ بھی بنا کر 20 جون کو باقاعدہ سماعت مقرر کیوں کی ہے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا کرنا ضروری تھا تو پہلے ہی الیکشن پر اپنے فیصلوں سے اثر انداز ہو کر متنازعہ ہونے والے چیف جسٹس نے اپنی ہی سربراہی میں الیکشن سے متعلق کیس کے لئے بینچ کیوں بنایا؟
کیا کوئی اور بینچ یا ججز اس قابل نہیں کہ وہ الیکشن کے معاملات پر فیصلہ کر سکے ؟
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا چیف جسٹس فارم 47 کے ایشو کو بنیاد سے ہی ختم کر دینا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے بنائی گئی حکومت کو قائم رکھا جا سکے ؟
اختتامیہ – Conclusion
امید واثق ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کا اختیار چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سونپ کر ای سی پی کو مرضی کے ریٹائرڈ ججز کی سرپرستی میں الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے ذریعے مرضی کے فیصلے لینے کی اجازت دے کر ایک اور سیاہ دھبہ اپنے ماتھے پر سجا لے گی۔
اس سے قبل بھی الیکشن کمیشن کی اپیلوں پر قاضی فائز عیسیٰ نے بالکل ایسے ہی فیصلے دیئے ہیں جیسے باپ اپنے لاڈلے بچے کے ناجائز مطالبات بھی پیار میں پورے کر دیتا ہے۔