Reality of Pakistani judiciary

متحدہ ہندوستان میں انگریز دور میں تمام سسٹم کچھ انگریز افسران کا غلام ہوا کرتا تھا، سسٹم اس بات کا خصوصی خیال رکھتا تھا کہ کوئی ایسی حرکت یا کوئی ایسا فیصلہ اس سے سرزد نہ ہو جس سے انگریز بابو کو اپنے ماتھے پر شکن لانے کی زحمت کرنا پڑے۔۔

انگریز دور تو ختم ہو گیا ہے لیکن اس کی باقیات نوزائیدہ ریاست پاکستان میں کالے انگریزوں کی صورت میں باقی رہ گئیں جو آج 75 سال بعد بھی اپنی انگریزانہ روش کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، یہ کالے انگریز سفید انگریزوں سے زیادہ سفاک ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ یہ جعلی انگریز ہیں تو ان کے ہر فعل میں شدت پسندی کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔۔۔

ججز کے سکینڈلز کیسے بنتے ہیں؟

زیادہ پرانی بات نہیں ہے ایک دو ماہ قبل ہی پاکستان کی اعلی عدلیہ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو جوڈیشل مرڈر قرار دے کر پاکستانی عدلیہ کی کالے انگریزوں کی غلامی کے الزام پر حقیقت کی مہر لگا دی اور اپنے پیشرو ججز کو ایک وزیراعظم کا قاتل ڈکلیئر کر دیا۔۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن ٹربیونل ایشو: چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے نا ممکن کو ممکن کیسے بنایا؟

فوجی آمر ضیاء الحق کے دور میں ہونے والے اس عدالتی قتل کے بعد اگر کوئی جج زیر عتاب آتا ہے اس کے جھوٹے سچے سکینڈل باہر نکلتے ہیں اور اس کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں ریفرنسز دائر ہوتے ہیں تو یہ یقین کر لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ جج حق پر ہے ورنہ وہ ریاستی عتاب کا شکار کبھی نہ ہوتا۔۔۔


Is the Pakistani judiciary under the control of the establishment? fiction or reality? Get the answer with live facts and examples in Urdu


حالیہ کچھ عرصے میں عدلیہ میں ایسے کچھ اہم سانحات وقوع پذیر ہوئے جس کے بعد عدلیہ پر ایک مخصوص ادارے کے کنٹرول کی جو داستانیں شک کے لحاف میں لپٹی ہوئی عوام میں سینہ بہ سینہ گردش کیا کرتی تھیں اب ایک مجسم حقیقت اور یقین کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔

پاکستانی عدلیہ – pakistani judiciary – پر کنٹرول کی پالیسی کیا ہے؟

سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان کے استعفوں، لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج کے استعفے، 6 ججوں کے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط اور سرگودھا کی انسداد دہشتگردی کی عدالت کے ایک ماتحت عدلیہ کے جج کے ساتھ ہونے والے واقعات، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی دھاندلیوں سے متعلق ٹربیونلز کورٹس کی تشکیل کے تنازعات، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے مداخلت سے متعلق بیانات، ان کی سپریم کورٹ منتقلی کی داستانیں اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ان سے مبینہ ملاقات اور اس کے بعد جسٹس شہزاد کیخلاف سوشل میڈیا پر بیہودہ کمپین میں تیزی ایسے واقعات ہیں جن سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں ہے۔

ایسے تمام ججز جو ایک مخصوص ادارے کے سامنے جھکنے سے انکار کر رہے ہیں ان تمام ججز کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ کوئی دہائیوں پرانی باتیں نہیں ہیں کہ عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں بلکہ ان معزز ججز کو کنٹرول کرنے کے لئے ماضی بعید کی طرح آج بھی مختلف طریقوں، ہتھکنڈوں اور حربوں سے باقی ججز کے لئے نشان عبرت بنانے کی کوششیں آج سر عام ہو رہی ہیں۔

how establishment control pakistani judiciary?

چاہے وہ جسٹس شہزاد ملک کی گاڑی کا کوئی پرانا حادثہ ہو یا جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کو جعلی قرار دے کر میڈیا کے ذریعے کردار کشی کی مہم ہو یا جسٹس بابر ستار کی نجی معلومات کو افشاں کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر غلیظ مہم ہو یا جسٹس بابر، جسٹس جہانگیری اور جسٹس ارباب طاہر کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور فوائد کے حصول جیسے بوگس الزامات پر جوڈیشل کمیشن میں مقدمے کا اندراج کا معاملہ ہو یہ سب حربے ان معزز ججز پر دبائو بنا کر انہیں اپنی انگلیوں پر نچانے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔

جسٹس شہزاد ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

اختیارات کے ناجائز استعمال کی اگر بات کی جائے تو جو لوگ 9 فروری کو آر اوز کی جگہ ان کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے فارم 47 بنا کر جعلی نتائج کے ذریعے شکست خوردہ امیدواروں کو سلیکٹ کر کے اسمبلیوں میں بھیج رہے تھے وہی لوگ آج ان معزز ججز کے خلاف کمر بستہ نظر آتے ہیں اور ان مخصوص ججز کو کنٹرول کرنے کے لئے تمام حربے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔

جسٹس شہزاد ملک کیخلاف سازش کو اگر دیکھا جائے تو اسلام آباد پولیس جس کے خلاف عدالتوں میں کوئی بھی کمپلین جائے تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ اوپر سے پریشر تھا خود اپنی نگرانی میں کچھ سادہ لباس مشکوک لوگوں کے ساتھ ڈی چوک میں جسٹس شہزاد کے خلاف مظاہرہ کرواتے ہوئے احتجاجی نعرے لگوا رہی تھی بعد میں پولیس نے گرفتاریوں کا ڈرامہ ضرور کیا لیکن یہ ڈرامہ تو مظاہرہ کرنے سے پہلے بھی ہو سکتا تھا اور جہاں جلسے روکنا پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ان ایک ڈیڑھ درجن مظاہرین کو مظاہرے سے روکنا کون سا مشکل کام تھا؟

Justice Malik Shehzad Ahmed Khan
Justice Malik Shehzad Ahmed Khan

جسٹس شہزاد کی بیٹی کو کیسے استعمال کیا جا رہا ہے؟

جسٹس شہزاد کی بیٹی کو اس معاملے میں گھسیٹ کر جس طرح انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش ہو رہی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، حالانکہ حادثے کو دو سال گزر چکے ہیں اور حادثے کے بعد معاملات طے ہو چکے تھے لیکن وہ جو کہا جاتا ہے نا کہ فائلیں کبھی بند نہیں ہوتیں تو اچانک دو سال بعد یہ فائل پھر سے کھولنے والے وہی لوگ ہیں جن کے سرے عدلیہ کو کسی بھی طرح کنٹرول کرنے والے عناصر کے ساتھ جا ملتے ہیں، یہ لوگ حادثے کی فوٹیج بھی نکال لائے ہیں اور ویڈیوز بھی کہیں سے نکال لائے ہیں اور جسٹس شہزاد کیخلاف مکڑی کا پورا جالا بن لیا گیا ہے۔

جسٹس شہزاد ملک کا قصور اگر دیکھا جائے تو انتخابی نتائج میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے بنائے جانے والے الیکشن ٹربیونلز کے معاملے میں انہوں نے پریشر لینے سے انکار کر دیا اور سخت موقف اختیار کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ عدلیہ میں مداخلت بہت جلد ختم ہونے والی ہے، انہوں نے الیکشن ٹربیونلز کے معاملے پر پاور فل سٹینڈ لیا اور الیکشن کمیشن کے ساتھ مخصوص ادارے سے جڑے ہوئے لوگوں کو بھی ٹف ٹائم دیا جس کے بعد اب وہ خود ٹف ٹائم برداشت کر رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی ساکھ برباد کرنے کی کوششیں

اسی طرح جسٹس بابر ستار کے بارے میں اچانک پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس امریکہ کا گرین کارڈ بھی ہے اور بالکل اسی طرح جسٹس جہانگیری کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ ان کو ڈگری ہی جعلی ہے اور بالکل اسی طرح جسٹس ارباب کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مراعات کا حصول چاہتے تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایجنسیاں پہلے کہاں ریت میں سر دبائے ہوئے تھیں؟ یہ سارے کیسز اور معاملات تبھی کیوں سامنے آ رہے ہیں جب ان ججز نے جھکنے سے انکار کر کے ایجنسیوں کے سلوک اور مداخلت کو ایک خط کے ذریعے قوم کے سامنے آشکار کر دیا ہے؟

جسٹس بابر ستار کے پاس اسلام آباد ہائیکورٹ میں متعدد اہم کیسز ہیں جن میں سے ایک خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے شہریوں کی پرائیویٹ کالز کی ریکارڈنگ اور جاسوسی کا کیس ہے جس میں وہ ریاست پر قابض لوگوں کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں اور ہر طرح کے ناجائز حربوں کے باوجود کسی بھی دبائو میں آنے کو تیار نہیں ہیں، یہ کیس ایجنسیوں کے لئے ایک عذاب بنا ہوا ہے اور نتیجے میں جسٹس بابر ستار کی زندگی بھی عذاب بنی ہوئی ہے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری زیر عتاب کیوں؟

جسٹس طارق محمود جہانگیری کے پاس اسلام آباد کے تین حلقوں کے انتخابی نتائج میں ہیر پھیر کا کیس ہے اور وہ اس کیس میں سسٹم کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں، ہر طرح کے حربوں کے باوجود انصاف کرنے پر کمر بستہ ہیں اور اگر اس ملک میں انصاف ہونے لگ جائے تو مقتدرہ کے تو سسٹم سے کردار ہی ختم ہو جاتا ہے، نتیجتاً جسٹس جہانگیری بھی بیہودہ قسم کی کمپین اور فضول قسم کے ریفرنسز کا سامنا کر رہے ہیں لیکن جھکنے کو تیار نہیں ہیں۔

متعلقہ خبر: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس شہزاد احمد کی عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر تنقید اور خاتمے کا عندیہ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 معزز ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر چیف جسٹس نے محض تجاویز طلب کر کے معاملے کو لٹکا دیا ہوا ہے، اسی طرح اور بھی متعدد ایسے اہم کیسز ہیں جن پر اگر فیصلے آ جائیں تو وہ فیصلے مقتدرہ کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں وہ سب کیسز لٹکے ہوئے ہیں لیکن ایک اہم کیسز جو کہ مخصوص نشستوں کا ہے وہ چل رہا ہے، اس کیس میں بھی چیف جسٹس کی بے چینی پوری قوم لائیو دیکھ رہی ہے اور دیکھا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس کا جھکائو اسی فیصلے کی طرف ہے جس طرف مقتدرہ کے مفادات ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کردار

پاکستان قومی ایک عرصے سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے کردار کے حوالے سے سوالات اٹھا رہی ہے اور ان کے لئے انتہائی نامناسب الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور انہیں مقتدرہ کا کنٹرولڈ چیف جسٹس قرار دیا جاتا ہے، چیف جسٹس کے کیس میں خود اپنے ریمارکس ہیں کہ شاید میں نے وہ جج ہوں جس نے قوم سے سب سے زیادہ گالیاں کھائی ہیں لیکن چیف جسٹس اپنی سرشت بدلنے کو پھر بھی تیار نہیں ہیں اور ہر اس کیس میں جس کا تعلق عوام سے ہوتا ہے میں اپنی ٹانگ اڑا کر عوام کے مخالف فیصلے دیتے نظر آتے ہیں۔

چیف جسٹس بھی اشرافیہ کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بیرون ممالک مفادات ہیں، محلات ہیں اور نسلیں ہیں، ایسے لوگوں کو کنٹرول کرنا مقتدرہ کے لئے بہت آسان ہوتا ہے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کبھی ایسی رائے بنانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کنٹرولڈ نہیں ہیں، مریم نواز کی طرح انہیں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے فیصلوں سے پبلک میں ان کے بارے میں رائے عامہ کس طرح کی بنتی ہے۔

عدالتوں – Pakistani judiciary – پر اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول کی ایک مثال

عدالتوں پر مقتدرہ کے کنٹرول کی ایک جھلک چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کے ایک کیس کے دوران دیئے جانے والے ان ریمارکس میں دیکھی جا سکتی ہے کہ جس میں وہ ایک سیاسی شخصیت کو کہہ رہے ہوتے ہیں جبکہ آپ تک آپ ان کی مرضی کا بیان نہیں دیں گے وہ لوگ آپ کو نہیں چھوڑیں گے اور مشورہ دیتے ہیں کہ پریس کانفرنس کر کے اپنی جان چھڑوا لیں۔

جسٹس عامر فاروق کے یہ ریمارکس ان کے مقتدرہ کے کنٹرول میں ہونے اور فیصلوں میں مقتدرہ کے مفادات کے تحفظ کا ایک ننگا ثبوت ہیں اور اس بھی اس کے علاوہ درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن مقصد صرف بات کو ڈلیور کرنا ہوتا ہے۔

اختتامیہ

رجیم چینج آپریشن کے بعد عمران خان کی مزاحمت کے بعد معزز ججز وہ دوسرا طبقہ ہے جنہوں نے مقتدرہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے، جیت ابھی تک عمران خان بھی نہیں سکا اور جیت معزز جج صاحبان بھی نہیں پائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیت مقتدرہ کے حصے میں بھی نہیں آ سکتی اور وہ اپنے برے ترین وقت سے گزر رہے ہیں، نہ ان سے تحریک انصاف کنٹرول ہو پا رہی ہے اور نہ ہی عدالتیں، نہ پبلک اور نہ ہی سوشل میڈیا۔

یہ جنگ کہاں جا کر ختم ہوتی ہے معلوم نہیں، لیکن اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہی تو جو فریق سب سے زیادہ متاثر ہو گا وہ صرف عوام ہے۔

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے