چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس شہزاد احمد کی عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر تنقید اور خاتمے کا عندیہ

لاہور ۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان نے اسٹیبلشمنٹ کی عدالتی معاملات میں مداخلت پر کھل کر تنقید کی ہے اور اس کے جلد خاتمے کا عندیہ دیا ہے، انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں مداخلت کی شکایات اور خطوط موصول ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان کے اہم نکات

  • اسٹیبلشمنٹ کی عدلیہ میں مداخلت کا باب جلد اختتام پذیر ہو گا
  • اداروں کی جانب سے عدلیہ میں مداخلت کی شکایات موصول ہوئی ہیں
  • عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے
  • کسی بھی قربانی کے لئے تیار ہوں لیکن کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دوں گا
  • ایجنسیوں کی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی زبانی شکایات کا بھی انکشاف کر دیا

راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے Chief Justice LHC نے کہا کہ یہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت مولوی تمیز الدین کیس سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔

جسٹس شہزاد نے تقریب کے شرکاء کو بتایا کہ انہیں عدلیہ میں مداخلت کی شکایات زبانی اور خطوط کے ذریعے موصول ہوئی ہیں جس میں کچھ ادارے ملوث ہیں جن کا نام لینا مناسب نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مل کر جوڈیشری میں مداخلت سے نجات حاصل کرنا ہو گی، خوشی ہے کہ عدلیہ بغیر کسی خوف اور لالچ کے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے۔

سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت (ATC) کے سیشن جج کی جانب سے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جسٹس شہزاد احمد کا کہنا تھا کہ جج نے اپنی شکایت میں واضح کیا ہے کہ انہیں جن حالات و واقعات کا سامنا ہے وہ ان سے خوفزدہ نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی قربانی کے لئے تیار ہیں لیکن کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیں گے، انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے شرکاء کو دوران خطاب بتایا کہ ہمیں اسی طرز کی دیگر شکایات بھی موصول ہوئی ہیں، بہت سی شکایات تحریری شکل میں نہیں ہیں کیونکہ پھر ثبوت بھی طلب کئے جاتے ہیں جنہیں فراہم کرنا مشکل ہو گا۔


Chief Justice LHC Malik Shahzad Ahmad Khan exposes the establishment’s interference in the Pakistani judiciary in an Public Event in Rawalpindi and says it will end soon.

عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے حالیہ واقعات

12 جون بروز بدھ کو جسٹس شہزاد احمد نے سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کی انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہراساں کئے جانے کی شکایت پر آئی جی پنجاب عثمان انور اور دیگر حکام کو طلب کیا تھا۔

رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ 7 جون کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عباس کی جانب سے رپورٹ موصول ہوئی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ 25 مئی کو جب انہوں نے اے ٹی سی سرگودھا کا بطور جج چارج سنبھالا تو پہلے دن ہی انہیں پیغام دیا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے کچھ حکام ان کے چیمبر میں ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں اختیارات کی جنگ، الیکشن ٹربیونلز سپریم کورٹ میں چیلنج

جسٹس محمد عباس کے ملاقات سے انکار پر انہیں مختلف حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں اے ٹی سی کورٹ کے باہر فائرنگ اور ان کے اہل خانہ سے جانچ پڑتال جیسے واقعات شامل ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی شکایات

اس سے قبل مارچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 میں سے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین کو ایک چونکا دینے والا خط لکھا تھا جس میں ججز کے رشتہ داروں کے اغوا اور تشدد کے ساتھ ججز کے گھروں کے اندر خفیہ نگرانی کے ذریعے ججوں پر دباؤ ڈالنے جیسے واقعات کے بارے میں ایس جے سی کو آگاہ کیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس لے کر معاملے پر کارروائی شروع کی جس پر ہائیکورٹ نے اپنی سفارشات بھی پیش کی تھیں۔

Chief Justice LHCestablishment's interference in judiciaryin pakistan newsJustice Malik Shahzad Ahmad Khan