گردش دوراں کی شکار پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سابق وزیراعظم عمران خان کے آفیشل اکاؤنٹ پر متنازع پوسٹ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے پارٹی قیادت کو بھیجے جانے والے نوٹسز کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب 9 مئی کی تحقیقاتی ٹیم جے آئی ٹی نے لاہور سے راولپنڈی اڈیالہ جیل کا دورہ کیا اور پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی سے 9 مئی کے مقدمات کے حوالے سے تفتیش کی۔
Imran Khan refuses investigations about Hamoodur Rahman Commission Social Media Video, other Court Orders PTI Leadership to record statement, JIT interrogates Shah Mahmood Qureshi..
ایف آئی اے کا پی ٹی آئی کے ذمہ داران کو نوٹس
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے پی ٹی آئی کی لیڈر شپ چیئر مین بیرسٹر گوہر، سیکرٹیری جنرل عمر ایوب خان اور پارٹی ترجمان رؤف حسن کو جاری کیے گئے نوٹسز میں الزامات لگایا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگریز مواد شائع کیا گیا ہے جس کی انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔
ایف آئی اے کے نوٹس میں پی ٹی آئی کے تینوں مرکزی رہنماؤں کو ایف آئی اے سائبر کرائم میں سب انسپکٹر منیب ظفر کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہونے اور بیان ریکارڈ کرانے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
نوٹس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے تھا کہ پیش نہ ہونے کی صورت میں تینوں ذمہ داران کے خلاف دفعہ 174 پی پی سی کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: باجوہ پر بھروسے کا پچھتاوا، عمران خان کا امریکی صحافی مہدی حسن کو جیل سے ایکسکلوزو انٹرویو
ایف آئی اے کے نوٹس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کے اکائونٹ سے شائع کئے گئے مواد سے عوام میں خوف و ہراس پھیل سکتا ہے اور کسی کو بھی ریاست یا ریاستی ادارے یا عوامی سکون کے خلاف جرم کا مرتکب ہونے پر اکسایا جا سکتا ہے۔
متنازع سوشل میڈیا پوسٹ میں کیا تھا؟
26 مئی کو عمران خان کے آفیشل ایکس اکائونٹ پر شیئر کی جانے والی ویڈیو میں بانی پی ٹی آئی سے منسوب ایک پیغام بھی شامل تھا جس میں پاکستانی قوم پر زور دیا گیا تھا کہ وہ 1971 کے واقعات اور سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کا مطالعہ کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں کے ملک کے دو لخت ہونے کے پیچھے جنرل پاکستانی جرنیل جنرل یحییٰ خان تھا یا عوام کا منتخب نمائندہ شیخ مجیب الرحمان تھا؟ ان دونوں میں سے حقیقی غدار کون تھا؟
ویڈیو میں 1997 میں بنگال میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران افواج پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے مبینہ مظالم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ سابق فوجی ڈکٹیٹر ہی ملک کے ٹوٹنے کا ذمہ دار ہے، اس ویڈیو میں موجودہ سویلین اور فوجی قیادت کی تصاویر بھی شامل ہیں، جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے عام انتخابات میں عوام کا مینڈیٹ چوری کیا ہے۔
پی ٹی آئی کا ایف آئی اے کو نوٹس
پاکستان کی سابق حکمران اور موجودہ معتوب سیاسی جماعت پی ٹی آئی نے ایف آئی اے کے نوٹس کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں درخواست دائر کر کے نوٹس جاری کر دیا ہے جس میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر اس معاملے میں شکایت کنندہ تھے اور انہوں نے بانی پی ٹی آئی اور دیگر رہنمائوں پر مسلح افواج کے اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کا الزام لگایا ہے۔
پی ٹی آئی لیڈر شپ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے اکائونٹ سے جاری کی گئی ویڈیو کا مقصد 1971 کے واقعات کے تناظر میں قومی مکالمے کی حوصلہ افزائی کرنا اور ملک کو جاری سیاسی بحران سے نکالنا ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت ان نوٹسز کو فوری طور پر کالعدم قرار دے کر ایف آئی اے کو پی ٹی آئی قیادت کو ہراساں کرنے سے باز رکھے۔
پی ٹی آئی نے درخواست میں وزارت داخلہ، ایف آئی اے کے شکایت کنندہ افسر اور تفتیشی افسر کو ڈائریکٹ فریق بنا کر نوٹس جاری کروائے ہیں۔
متنازع پوسٹ: ایف آئی اے کو تحقیقات کی اجازت
پی ٹی آئی کی متنازع سوشل میڈیا پوسٹ کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو پی ٹی آئی کے مرکزی رہنمائوں کے بیانات قلم بند کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
لیڈر شپ کا دعوی تھا کہ ان کا مذکورہ سوشل میڈیا پوسٹ سے کوئی تعلق نہ ہے اور نہ ہی وہ عمران خان کے اکائونٹ کو چلا رہے ہیں نیز انہوں نے نوٹس کے اجراء کو ایف آئی اے کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سائبر کرائم کی کارروائی کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
تاہم عدالت نے پارٹی قیادت کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ پیش ہو کر اپنے بیانات قلم بند کروائیں نیز حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ٹیم قیادت کو ہراساں نہیں کریں گے اور اگلی سماعت تک پارٹی قیادت کے خلاف کوئی منفی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
عمران خان کا تفتیشی ٹیم سے ملنے سے انکار
واضح رہے کہ اسی ایشو میں بغاوت پر اکسانے کے الزامات کے تحت ایف آئی اے کی ایک تفتیشی ٹیم عمران خان سے تفتیش کرنے کے لئے اڈیالہ جیل بھی پہنچی تھی لیکن بانی پی ٹی آئی نے تفتیشی ٹیم سے ملنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ وہ اپنے وکیل کی موجودگی میں ہی ملاقات کریں گے۔
جے آئی ٹی کی اڈیالہ میں شاہ محمود قریشی سے تفتیش
9 مئی کے پر تشدد واقعات کی تحقیقات کے لئے ایس پی عثمان کی سربراہی میں انسپکٹر عالم اور اے ایس آئی ایوب سمیت 8 رکنی جے آئی ٹی نے لاہور سے پی ٹی آئی کے وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی سے تفتیش کے لئے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا اور شاہ محمود سے دو گھنٹے تک تفتیش کا عمل جاری رکھا جبکہ تفتیش کا دوسرا دور مکمل کرنے کے بعد جے آئی ٹی ٹیم واپس لاہور پہنچ گئی ہے۔
شاہ محمود قریشی کیخلاف مقدمات کی سماعت
دوسری چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے شاہ محمود قریشی کے خلاف دائر تمام مقدمات پر اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی اپنے وکیل بیرسٹر تیمور ملک کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں اور عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے رپورٹ پہلے ہی موصول ہو چکی ہے جبکہ دیگر اداروں کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میرے قتل کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا لیکن مجھے موت کا کوئی خوف نہیں، عمران خان
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سابق وزیر خارجہ کے خلاف اسلام آباد میں 17 جبکہ پنجاب میں 38 مقدمات درج ہیں، اس کے علاوہ بھی کہیں مقدمات درج ہیں تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کوئی کیس درج نہیں ہے۔
جب عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پولیس کے علاوہ دیگر اداروں میں بھی مقدمات ہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس حوالے سے رپورٹ پیش کریں گے۔
چیف جسٹس کا مقدمات پر حیرت کا اظہار
چیف جسٹس نے ایک ہی واقعے کے تناظر میں اتنی بڑی تعداد میں درج مقدمات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کے دو یا تین کیسز تو سمجھ آتے ہیں لیکن 38 کیسز کیسے ہو گئے؟ اور صرف اسلام آباد میں یہ 17 کیسز ہیں؟ چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ اسلام آباد کتنا بڑا ہے؟
بیرسٹر تیمور ملک نے عدالت کو بتایا کہ شاہ محمود قریشی 9 مئی کو نہ تو اسلام آباد میں تھے اور نہ ہی پنجاب میں بلکہ وہ اس دن کراچی میں تھے، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔
شاہ محمود قریشی کے مقدمات کی حقیقت
پی ٹی آئی کے وائس چیئر مین اڈیالہ جیل میں قید ہیں، انہیں سائفر کیس میں ہونے والی سزا کے تحت اڈیالہ میں قید کیا گیا تھا لیکن سائفر کیس میں بری ہونے کے بعد ان کیخلاف اسلام آباد اور پنجاب میں اچانک 38 مقدمات نکل آئے جن کی بنیاد پر ان کی رہائی کو روک دیا گیا ہے۔
قارئین کو واضح رہے کہ یہ تمام مقدمات سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے ہیں، نہ تو تفتیشی اداروں کے پاس ان مقدمات کے ثبوت ہیں اور نہ ہی یہ مقدمات ثابت کئے جا سکتے ہیں، ا
ان مقدمات کا مقصد فقط سست رو عدالتی سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے انہیں قید رکھنا ہے تاہم درکار عدالتی ٹرائل کے بعد کسی بھی سماعت پر شاہ محمود قریشی پر قائم مقدمات کے اخراج اور رہائی کے احکامات جاری ہو سکتے ہیں۔
ویڈیو جس پر عمران خان پر غداری کے مقدمات بنانے کی تیاری ہے:
”ہر پاکستانی کو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرنا اور یہ جاننا چاہئیے کہ اصل غدار تھا کون؛ جنرل یحیٰ خان یا شیخ مجیب الرحمٰن“ – بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان #غدار_کون_تھا pic.twitter.com/w18MyZYONB
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) May 27, 2024