Imran khan Interview from jail with mehdi hassan

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل سے الجزیرہ اور ایم ایس این بی سی کے سابق نمائندے اور صحافی مہدی حسن کو خصوصی انٹرویو دیا ہے جسے Zeteo پر شائع کیا گیا ہے۔

عمران خان پر اڈیالہ جیل سے تبصرے یا پیغامات بھیجنے پر سخت پابندیاں عائد ہیں، اس انٹرویو سے قبل وہ صرف اہم مطبوعات میں شائع ہونے والے مقالوں کو ہی شائع کر پاتے تھے، جو ممکنہ طور پر پی ٹی آئی پارٹی کے کسی رہنماء کی جانب سے عمران خان کی بریفنگ لے کر لکھے جاتے تھے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نیوز آؤٹ لیٹ کی جانب سے تفصیلی فیچر انٹرویو شائع کیا گیا ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ مہدی اور پی ٹی آئی نے انٹرویو کا اہتمام کیسے اور کب کیا تھا۔

Imran Khan Interview with Mehdi Hassan from Adyala Jail in Urdu, Mehdi is a American Journalist who worked for Al Jazea english and MSCNBC.

مہدی ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا انہیں کوئی پچھتاوا ہے جس پر خان جواب دیتے ہیں کہ انہیں صرف جنرل باجوہ پر اعتماد کرنے کا افسوس ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنرل باجوہ نے اکیلے ہی امریکہ جیسے ممالک کو کہانیاں پھیلائیں اور مجھے امریکہ مخالف یا ان کے ساتھ اچھے تعلقات میں دلچسپی نہ رکھنے والے کے طور پر پیش کیا، ان کا کہنا تھا کہ میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں اور مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے، اللہ نے مجھے دولت سے شہرت تک سب کچھ دیا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میری مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا، نہ ہی کوئی مجھے خرید سکتا ہے اور نہ ہی میں کبھی جھکوں گا۔

مہدی حسن کا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان کا پہلا انٹرویو 2010 میں دی نیو اسٹیٹس مین کے لیے کیا تھا، گزشتہ 14 سالوں میں میں نے ان سے متعدد مواقع پر بات کی ہے، جن میں الجزیرہ انگلش اور ایم ایس این بی سی کے لیے ٹیلی ویژن انٹرویوز بھی شامل ہیں۔

لیکن میں نے پہلے کبھی عمران خان کا اس طرح سے انٹرویو نہیں کیا۔

پاکستان کو ورلڈ کپ جتوانے سے لے کر پاکستان کے 22 ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے ملک کی قیادت کرنے والے لیجنڈری کرکٹ کھلاڑی عمران خان اب جیل کی کوٹھری میں ہیں، 2018 میں عام انتخابات کے بعد وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انہیں 4 سال بعد پارلیمان میں ایک متنازعہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا، عمران خان نے اس تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا تھا جس کی بائیڈین انتظامیہ مسلسل تردید کرتی آ رہی ہے۔

گزشتہ سال 9 مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کو پاکستانی حکام نے پرتشدد طور پر گرفتار کر لیا تھا جس کے بعد ان کی پارٹی کی جانب سے پاکستان میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے جن پر ملک بھر میں پولیس کی جانب سے وحشیانہ کریک ڈاؤن کیے گئے تھے۔

عمران خان کو قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے، حالانکہ القادر ٹرسٹ کیس میں بدعنوانی پر ہونے والی سزا پر ضمانت ملنے کے بعد بھی یہی سلوک روا رکھا گیا ہے جس کی وجہ ایک وجہ سائفر کیس میں ریاستی راز پبلک کرنے اور شادی کے قوانین پر عجیب و غریب انداز میں دی گئی سزا کاٹ رہے ہیں۔

قاتلانہ حملے میں بچ نکلنے کے دو سال بعد بھی وہ اپنی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں اور میرے ساتھ دوران انٹرویو بھی انہوں نے پاکستانی حکام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے انہیں مختلف نفسیاتی ہتھکنڈوں کا نشانہ بنا کر اندر سے توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: میرے قتل کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا لیکن مجھے موت کا کوئی خوف نہیں، عمران خان

پاکستانی حکام نے سابق وزیراعظم کی گرفتاری اور ان پر قائم مقدمات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی گرفتاری کا فروری میں ہونے والے عام انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور انہیں غیر قانونی کاموں پر عدالتوں نے مجرم قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر کے طور پر قومی سطح پر عمران خان زبردست مقبولیت رکھتے ہیں۔  

انٹرویو کے دوران مسٹر خان نے مجھے بتایا کہ شہباز حکومت کسی قسم کی قانونی حیثیت سے محروم ہے جبکہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے بھی وہ اسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔

الیکشن کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن مشکل سے 17 نشستیں حاصل کر سکی ہے، انتخابات میں پرتشدد کارروائیاں اور پری پول دھاندلی بالکل واضح تھی، انہیں نتائج بدلنے میں دو دن لگ گئے اور تب تک حتمی نتائج لٹکے رہے۔

عمران خان نے مہدی حسن کو کہا کہ آپ اپنے چینل کے توسط سے فارم 45 کی تحقیقات کروائیں یہ لوگ ٹھیک طرح سے دھاندلی بھی نہیں کر سکے ہیں۔

مہدی حسن کا کہنا تھا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مسٹر خان کے قید میں ہونے کی وجہ سے یہ کوئی عام انٹرویو نہیں تھا، میں اپنے جوابات کے لئے انہیں صرف تحریری سوالات کی ایک فہرست ہی بھیج سکتا تھا اور براہ راست بات کرنے کی اجازت نہیں تھی نہ ہی میں ان کا فالو اپ سوال پوچھنے کی پوزیشن میں تھا، بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ Zeteo کا پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ یہ انٹرویو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

مہدی: سلاخوں کے پیچھے زندگی کیسی ہوتی ہے؟ کیا آپ پر تشدد یا بدسلوکی کی گئی ہے؟

جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے ڈیتھ سیل میں قید رکھا گیا ہے جو کہ دہشتگردوں کے مختص ایک چھوٹی سی الگ تھلگ جگہ ہے اور حکام مجھے دہشتگردوں کی طرح ہی رکھنا چاہتے ہیں، قید تنہائی میں مجھے قیدیوں کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی رہنمائوں پر تنقید کرتا ہوں۔

مجھے توڑنے کے لئے نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن میرا دل اللہ پر ایمان کی وجہ سے مضبوط رہتا ہے، میں ورزش اور مطالعے کے ذریعے خود کو مصروف رکھتا اور اپنے دماغ کو فعال رکھتا ہوں، یہاں یہ اس سب کے دوران آگے آنے والے حالات کے لئے خود تیار کر رہا ہوں، اللہ پر ایمان کی طاقت مجھے مطمئن رکھتی ہے اور میری توجہ بھی مرکوز رکھتی ہے۔

مہدی: آپ اپنی موجودہ قید کا ذمہ دار کسے ٹھہراتے ہیں؟ آپ کے پاکستانی سیاسی حریف، پاکستانی فوج، امریکہ یا یہ سب؟

جواب میں مسٹر خان کا کہنا تھا کہ قید کے ان دو سالوں میں میرے پاس غور کرنے، ہر اقدام اور اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے لئے کافی وقت تھا، 11 ماہ جیل میں گزارنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ یہ کارنامہ [تحریک عدم اعتماد] صرف جنرل باجوہ نے انجام دیا تھا، میں اور کسی کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا۔

جنرل باجوہ نے بڑی احتیاط سے اس منصوبے کی منصوبہ بندی کر کے اسے عملی جامہ پہنایا اور خود کو ایک دھوکے باز شخصیت کے طور پر پیش کیا، قومی اور بین الاقوامی افراتفری پھیلانے کے لیے جھوٹے اور جھوٹے بیانیے تخلیق کیے، وہ جمہوریت اور پاکستان پر اپنے اقدامات کے مضر اثرات کو سمجھنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔

مہدی: کیا آپ ابھی بھی مانتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ رجیم چینج سازش میں ملوث تھی؟

عمران خان: جنرل باجوہ اکیلے ہی امریکہ جیسے ممالک میں میرے بارے میں کہانیاں پھیلاتے رہے کہ میں امریکہ مخالف ہوں یا ان کے ساتھ اچھے تعلقات میں دلچسپی نہیں رکھتا، ان کا یہ بیانیہ کہ میرا روس کے دورے کا فیصلہ یکطرفہ اور بغیر مشاورت کے تھا بالکل غلط ہے، روس کا دورہ باریک بینی سے غور و خوض کے بعد کیا گیا ایک مشترکہ فیصلہ تھا، اس کے باوجود اس دورے کو امریکہ مخالف اقدامات کے طور پر ظاہر کیا گیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اقتدار کے لئے نہ مٹنے والی بھوک اس سے یہ سارے کام کروائے، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے مختلف ممالک میں ہمارے بارے میں اور کون کون سا جھوٹا پراپیگنڈا کیا، اس کے اقتدار کے لالچ نے اسے ایسا بنا دیا جیسے کہ ، ایک چینی دکان میں ایک بھینسہ ہوتا ہے۔ [a bull in a China shop]

مہدی: آپ کے پاس کوئی دوست نہیں بچا تھا، آپ نے امریکہ اور بھارت کا سامنا کیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کے ساتھ محاذ آرائی کی اور پاکستانی جرنیلوں اور سیاست دانوں کے ساتھ بھی جنگ لڑی، آپ کی اس وقت کی سوچ کیا تھی؟

مسٹر خان: میں نے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے لئے مسلسل جدوجہد کی ہے، اگر انصاف مساوی طور پر دیا جاتا تو سیاست میں میرے جیسے شخص کی کوئی ضرورت نہیں تھی، میں نے زیادہ تر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے ہیں، جنرل باجوہ کے پھیلائے ہوئے زہر کا قلیل مدتی اثر تو ہو سکتا ہے لیکن یہ دیر تک قائم نہیں رہے گا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میری حکومت کے خاتمے کے بعد بھی میں کئی عالمی رہنمائوں کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات قائم رکھے، زیادہ تر ممالک پاکستان کے غیر مستحکم سیاسی ماحول کو فوج کے زیادہ طاقت ور اور مستحکم ہونے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

جب اس ایک مستحکم اور طاقت ور ادارے کا سربراہ وحشیانہ طاقت کے استعمال اور دھوکہ دہی کا مرتکب ہوتا ہے تو بہت سے ممالک کے لئے بولنا مشکل ہو جاتا ہے، اگر کوئی میری طبی سہولیات کے حوالے سے نہیں بولتا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن دنیا کو جمہوریت اور پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے لئے آواز ضرور اٹھانی چاہئیے جن کا مینڈیٹ دن دیہاڑے چوری کر لیا گیا ہے۔

خان نے موجودہ حکومت کو "غیر قانونی” قرار دیا اور انٹرویو کے اختتام پر فروری میں ہونے والے عام انتخابات کو دھوکہ دہی اور جمہوریت پر حملہ قرار دیا ہے۔

مہدی: کیا آپ پاکستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم کرتے ہیں یا آپ کو یقین ہے کہ آپ کی جماعت نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور پی ٹی آئی ہی پاکستان کی جائز یا حقیقی حکومت ہے؟

عمران خان: اس حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں بمشکل 17 نشستیں حاصل کی ہیں، انتخابات میں پرتشدد کارروائیاں اور پری پول دھاندلی بالکل واضح ہے، انتخابات کے بعد نتائج کو تبدیل کرنے میں دو دن لگے ہیں، میں آپ، مہدی اور آپ کے چینل پر زور دیتا ہوں کہ وہ فارم 45 کی چھان بین کریں تو آپ کھلم کھلا دھاندلی صاف دیکھیں گے، وہ ٹھیک طرح سے دھاندلی بھی نہیں کر سکے ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ صرف میرا نقطہ نظر نہیں ہے، کسی بھی پاکستانی سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ تو آپ کو بتائے گا کہ یہ حکومت جائز نہیں ہے، ہم سے ہماری شناخت چھین لینے اور قیادت کو کمزور کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود میری پارٹی پی ٹی آئی نے انتخابات میں نمایاں فتح حاصل کی ہے۔

مہدی: پاکستان میں آپ کے حامی آپ کو ایک مسیحا کے طور پر دیکھتے ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ یا آپ کے مشن میں کوئی خاص بات ہے، کیا آپ کے لئے یہ مشن مقدس مشن کا درجہ رکھتا رہے؟

عمران خان: مہدی مجھے اپنے کیے پر کوئی افسوس نہیں ہے، میں ایک پاکستانی اور ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کر رہا ہوں، خدا نے مجھے پیسے سے لے کر شہرت تک سب کچھ نوازا ہے، صرف ذاتی فائدے کا سوچنا نا انصافی ہو گی، اگر میں مقبول ہوں اور لوگ میری پیروی کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ میں ان سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا، وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی مجھے دولت سے نہیں خرید سکتا، وہ جانتے ہیں کہ میں کبھی کسی کے سامنے جھک کر انہیں مایوس نہیں کروں گا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اپنے لوگوں کو اس زندگی کے بارے میں بتاتا ہوں جس کے وہ مستحق ہیں اور اگر ہم اپنے اصولوں پر عمل پیرا ہوں تو وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں، میں نے اپنے ملک کی صلاحیتوں اور پوٹیشنل پر لوگوں کو شعور دیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ کس طرح دوسری پارٹیوں نے اپنے ذاتی مفادات اور مقاصد کے لئے پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کا فائدہ اٹھایا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا میرا میرے لوگوں کے ساتھ ایک مضبوط روحانی تعلق ہے اور ہم سب مل کر کامیاب ہوں گے۔

مہدی حسن: دنیا کے لیے آپ کا پیغام کیا ہے؟ پاکستان سے باہر کے لوگ اس بات کی پرواہ کیوں کریں کہ آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

مسٹر خان: میرا پیغام سادہ سا ہے کہ یہ صرف عمران خان کا معاملہ نہیں ہے، یہ جمہوریت اور 250 ملین لوگوں کے حق خودارادیت پر حملہ ہے، مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل، اغوا اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے باوجود خاموشی ہے، صرف ایک سیاسی جماعت کو ہر طرح سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

حال ہی میں میرے انفارمیشن سیکرٹری پر سڑک پر بلیڈ سے حملہ کیا گیا، ایکس [ٹوئٹر] جیسے سوشل پلیٹ فارمز پاکستان میں مہینوں سے بلاک ہیں، ٹی وی پر میرے نام پر بین ہے، میرے اہم رہنماؤں کو اب بھی ٹی وی چینلز پر آنے کی اجازت نہیں ہے، ملک کی ہر پارٹی اس الیکشن کو ہماری تاریخ کا بدترین الیکشن قرار دے رہی ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے ذریعے عوام کا اعتماد اور مینڈیٹ حاصل کرکے سیاسی استحکام کے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں، ان انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے الٹا ان انتخابات کے نتیجے میں عوام اور حکمران اشرافیہ کے درمیان مزید بد اعتمادی، غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔

Conclusion

خان نے موجودہ حکومت کو "غیر قانونی” قرار دیا اور انٹرویو کے اختتام پر فروری میں ہونے والے عام انتخابات کو دھوکہ دہی اور جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی جابر حکومت سے اختلاف رائے کرنے کی جرات کرتا ہے ، چاہے وہ مرد ، خواتین یا بچے ہوں، کو جبری گمشدگی اور یہاں تک کہ قتل کر دیئے جانے جیسی سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے