بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے زندان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں اور یہ تصاویر جاری ہوتے ہی جیسے سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہو گیا ہے، عمران خان کے چاہنے والے ان تصاویر کو لے کر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
عمران خان کی بیرک اور کمرے کی تصاویر کیسے جاری ہوئیں؟ کن مقاصد کے تحت جاری کی گئیں؟ چلئے اس آرٹیکل میں تفصیل سے ڈسکس کرتے ہیں۔
Facts About How were pictures of Imran Khan’s Prison Cell and barrack released? For what purposes were they issued? Let’s discuss the detail in Urdu…
عمران خان زندان کی تصاویر کیسے جاری ہوئیں؟
وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان تک ان کے وکلا اور اہل خانہ کی جانب سے رسائی میں رکاوٹ ڈالنے اور قید تنہائی میں رکھنے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا ہے جس میں عمران خان کے اڈیالہ جیل میں کمرے اور قانونی ٹیم سے ملاقات کی تصاویر بھی شامل کی گئیں جو کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حمود الرحمان کمیشن پوسٹ: تحقیقات شروع، عمران خان کا تفتیشی ٹیم سے ملنے سے انکار، قریشی سے انکوائری
وفاقی حکومت نے اپنے موقف کی سچائی ثابت کرنے کے لئے عمران خان سے ملاقات کرنے والے افراد کی فہرست بھی عدالت کو فراہم کی ہے اور عمران خان کے قید تنہائی کے الزام کو جھوٹا قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
تصاویر جاری کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی؟
سابق وزیر اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ میں نیب قوانین میں ترامیم کے کیس میں چیف جسٹس کے سامنے ویڈیو لنک پیشی کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ان کی قانونی ٹیم سے مشاورت اور ملاقات نہیں کرنے دی جاتی، وفاقی حکومت نے عدالت کو تجویز پیش کی ہے کہ ان دعوئوں کی تصدیق کے لئے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
حکومت نے جواب میں یہ بھی بتایا کہ عمران خان کو جیل میں تمام ضروری سہولیات فراہم کی گئی ہیں جن میں کتابیں، ایئر کولر اور ٹیلی ویژن شامل ہیں، جواب میں ان کی تصاویر بھی فراہم کی گئی ہیں۔
کیا حکومت کے سہولیات کے دعوے درست ہیں؟
قوانین کے مطابق سابق وزیراعظم کو قید خانے میں اے کیٹگری فراہم کرنا ضروری ہے جبکہ اے کیٹگری میں ذاتی ملازمین، اے سی، بہتر رہائش اور چہل قدمی وغیرہ کی مناسب سہولیات موجود ہوتی ہیں، جاری کی گئی تصاویر میں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے بلکہ تصاویر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عمران خان کو ایک ویران اور بالکل الگ تھلگ بیرک میں اکیلے قید میں رکھا گیا ہے جبکہ ان کے چھوٹے سے کمرے میں کوئی روشن دان یا ہوا کی آمد و رفت کے لئے مناسب جگہ بھی نہیں ہے اور وہ چار تنگ دیواروں کے اندر اپنی قید کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کے قید خانے کے حقائق:
عام طور پر ایک ڈیتھ سیل یا کال کوٹھڑی کی لمبائی و 10×12 فٹ سے لے کر 8×10 فٹ تک ہوتی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں عمران خان کے اڈیالہ جیل میں کمرے کی پیمائش کسی بھی لحاظ سے 8×10 فٹ سے زیادہ دکھائی نہیں دیتی ہے، جس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے انہیں کال کوٹھری میں رکھنے کے دعوے درست ثابت ہوتے ہیں۔
عمران خان نے گزشتہ دنوں امریکی صحافی مہدی حسن کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہیں قید تنہائی میں دہشتگردی کے لئے مخصوص بیرک میں رکھا گیا ہے، تصاویر جاری ہونے کے بعد عمران خان کا دعوی بھی سچ ثابت ہو گیا کیونکہ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک الگ تھلگ اور ویران بیرک کے کسی چھوٹے سے کمرے میں قید ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: باجوہ پر بھروسے کا پچھتاوا، عمران خان کا امریکی صحافی مہدی حسن کو جیل سے ایکسکلوزو انٹرویو
جبکہ عمران خان کو جو ایئر کولر فراہم کیا گیا ہے اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ صرف تین دن پہلے ہی فراہم کیا گیا ہے جس کی بنیادی وجہ سپریم کورٹ میں جواب جمع کروانا تھا، اگر حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع نہ کروانا ہوتا تو سابق وزیراعظم آج بھی ایئر کولر سے محروم ہوتے۔
اے کیٹگری کے قیدیوں کو ملنے والی سہولیات:
پاکستانی جیل مینوئل کے مطابق اے کلاس کے قیدیوں کو رہائش کے لئے دو کمروں پر مشتمل ایک الگ بیرک دیا جاتا ہے جس میں بیڈ، ایئرکنڈیشن، فریج اور ٹی وی کے علاوہ باورچی خانہ بھی شامل ہوتا ہے، اے کلاس کے قیدیوں کو اپنا الگ سے کھانا بنانے کی بھی اجازت ہوتی ہے جس کے لئے دو مشقتی بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔
عمران خان کے دعوئوں اور حکومتی تصاویر سے ثابت ہوتا ہے کہ اے کلاس کی کوئی بھی سہولت عمران خان کو میسر نہیں ہے اور اس حقیقت کے ثبوت حکومت نے خود تصاویر جاری کر کے دے دیئے ہیں۔
عمران خان کی قانونی ٹیم سے ملاقات میں رکاوٹوں کا معاملہ:
سابق وزیراعظم سے اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں کی سہولت کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) کو 28 مارچ کو با ضابطہ شکل دی گئی تھی جس کے مطابق پی ٹی آئی رہنمائوں بیرسٹر گوہر علی خان، شیر افضل مروت اور بیرسٹر عمیر احمد خان نیازی کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا تھا۔
عمران خان سے ملاقات کا شیڈول اور طریقہ:
ایس او پیز کے مطابق عمران خان کو منگل والے دن اہل خانہ اور وکلاء سے الگ الگ ملاقاتوں کی اجازت جبکہ جمعرات والا دن وکلاء اور دوستوں سے ملاقاتیں مقرر کی گئی تھیں۔
عمران خان سے ملاقات کے خواہشمندوں کو فوکل پرسنز کے ذریعے جیل حکام کے ساتھ رابطہ کرنا ہوتا ہے جبکہ فوکل پرسنز کو مقررہ دنوں سے ایک دن قبل وزٹر لسٹ فراہم کرنا ہوتی ہے جبکہ ہر ایک فوکل پرسن کو دو افراد کی ملاقات کروانے کی اجازت ہے۔
ملاقاتوں پر پابندی کیسے لگائی گئی؟
واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے نام نہاد انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر سیکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر 12 مارچ کو اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر دو ہفتوں کے لئے پابندی عائد کر دی تھی، پی ٹی آئی لیڈر شپ نے اس پابندی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ یہ عمران خان کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔
کیا عمران خان کو انصاف ملے گا؟
یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ وفاقی حکومت نے جھوٹ پر مبنی جواب سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کروایا ہے، نہ تو انہیں اے کلاس کے قیدیوں والی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی ان کے قید تنہائی کے دعوے جھوٹے ہیں اور یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ ان کی قانونی ٹیم سے مشاورت اور ملاقاتوں پر کس طرح پابندیاں عائد کی گئیں۔
اس سب جائزے اور حقائق کی جانچ پڑتال کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان ان حقائق کی روشنی میں عمران خان کو انصاف فراہم کر پائے گی؟ یا ان کی شکایات دور کر سکے گی؟
اور اس سب سے بھی بڑھ کر یہ سوال پوری پاکستانی قوم کا منہ چڑا رہا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہو گا کہ نہیں؟ کیونکہ قوم نے دیکھا کہ کس طرح انتخابات متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کر کے آئین و قانون کا مذاق بنایا گیا ہے۔