internet disruption and firewall installation in Pakistan
  • لاہور ہائی کورٹ کے جج کا سرکاری وکیل کے جواب پر برہمی کا اظہار
  • فائر وال لوگوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، درخواست
  • حکومت پی ٹی اے سے معلومات حاصل کر کے رپورٹ جمع کروائے گی، حکومتی وکیل
  • فائر وال کی تنصیب سے پاکستانی معیشت کو 3 بلین ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے، سینیٹر افنان
  • انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے انڈسٹری کو 300 ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے، پاکستان سافٹ ویئر ہائوسز ایسوسی ایشن

انٹرنیٹ سست روی کا معاملہ جمعہ کو ہائی کورٹ تک پہنچ گیا، جس کے ایک دن بعد وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن نے مواد کو فلٹر کرنے والے فائر وال کی تنصیب کی وجہ سے سست رفتار کی شکایات کی تصدیق کی تھی۔

جمعرات کے دن متعدد کاروباری اداروں اور صارفین، جوکہ انٹرنیٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں نے فائر وال نصب کرنے کے حکومتی فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں ایک ہفتے سے زائد عرصے سے انٹرنیٹ بند ہے۔

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (P@SHA) اور اراکین پارلیمنٹ نے فائر وال کے خلاف ایسے وقت میں آواز اٹھائی جب ٹیلی کام کمپنیز انٹرنیٹ کی بندش پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔

جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شکیل احمد نے حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش کے اقدام کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست پر سماعت کی، اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اسی طرح کی ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فائر وال لوگوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس شکیل احمد نے حکومتی وکیل کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کے لیے مہلت مانگنے پر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔

سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اس معاملے پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے معلومات حاصل کر کے رپورٹ پیش کرے گی۔

جس پر جسٹس احمد نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی اے نے انٹرنیٹ کی بندش پر وفاقی حکومت کو اعتماد میں لیا ہے؟ جج نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ انہیں (وکیل کو) انٹرنیٹ کی بندش کی بنیادی معلومات کا بھی علم نہیں ہے۔

درخواست گزار کے وکیل ندیم سرور نے موقف اختیار کیا کہ اگر انٹرنیٹ کی بندش قومی سلامتی اور امن و امان کے مفاد میں ہے تو عوام کو بندش سے آگاہ کیا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ لاکھوں پاکستانی ایک دوسرے سے رابطے اور ضروری کاروباری سرگرمیوں کے لیے انٹرنیٹ سروسز پر انحصار کرتے ہیں، انٹرنیٹ سروسز کو بلاک کرکے، فلٹر کرکے یا بند کرکے، حکومت صحت کی دیکھ بھال، ہنگامی اور مالی سروسز تک رسائی سمیت پبلک کی انٹرنیٹ تک رسائی کو ختم کر رہی ہے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہزاروں نہیں تو سیکڑوں کمپنیاں متاثر ہوئیں جن میں رائیڈ ہیلنگ کمپنیاں، فوڈ ڈیلیوری سروسز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شامل ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ سروسز کو بند کرنا اظہار رائے کی آزادی اور معلومات کے حق پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ کی بندش آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت فراہم کردہ تعلیم کے حق اور آرٹیکل 18 کے تحت کاروبار، تجارت اور پیشہ ورانہ بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں فائرل وال کی تنصیب کیخلاف درخواست

مواد فلٹر کرنے والی فائر وال کی تنصیب کے خلاف ایک اور درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کی گئی تھی، درخواست گزار کا کہنا تھا کہ فائر وال کی تنصیب کی وجہ سے انٹرنیٹ کی رفتار میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔

ایمان مزاری ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ فائر وال کی تنصیب کے معاملے پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے اور معاش کے لئے انٹرنیٹ تک رسائی کو بنیادی انسانی حق قرار دیا جائے۔

پاکستان سافٹ ویئر ہائوسز ایسوسی ایشن کے تحفظات

رواں ہفتے کے اوائل میں پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (P@SHA) نے فائر وال کی تنصیب پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور اس معاملے پر آئی ٹی انڈسٹری سے مشاورت کرنے کی درخواست کی تھی۔

P@SHA سینئر وائس چیئرمین علی احسان نے کہا تھا کہ انٹرنیٹ کی طویل بندش کی وجہ سے آئی ٹی کمپنیوں کے آپریشنز بری طرح متاثر ہوئے ہیں، انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے انڈسٹری کو 300 ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے، انہوں نے فائر وال کے ڈیزائن اور مقصد پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی کمپنیوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ فائر وال سے ڈیٹا پر سمجھوتہ ہوگا جبکہ آئی ٹی انڈسٹری اس ڈیجیٹل خلل کو قومی معیشت کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، انہوں نے سائبر سیکیورٹی کو موثر بنانے کے لئے شفاف طریقہ کار اپنانے پر زور دیا۔

فائر وال کا معاملہ سینٹ کمیٹی میں زیر بحث

انٹرنیٹ کی بندش اور فائرل وال کی تنصیب کا معاملہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے اجلاس میں بھی اٹھایا گیا،  سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ ملک کو پہلے ہی شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور اگر انٹرنیٹ کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا تو ملک کو آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات میں 3 ارب ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔

انٹرنیٹ کی بندش پر حکومت کی وضاحت

وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ فائر وال کی وجہ سے انٹرنیٹ کی سست رفتار کی شکایات موصول ہوئی ہیں اور وزارت نے پی ٹی اے سے رپورٹ طلب کی ہے۔

انہوں نے فائر وال کی تنصیب کا دفاع کرتے ہوئے اسے سائبر سکیورٹی کا اقدام قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ "دنیا کے تمام ممالک فائر وال استعمال کر رہے ہیں.” ملک پر سائبر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ریاست کو سائبر حملوں کو روکنا ہوگا۔

گزشتہ دو ہفتوں سے مسلسل مسائل کے بعد جمعہ کے روز انٹرنیٹ خدمات معمول پر آ گئیں۔ سوشل میڈیا ایپس یعنی واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ پر تصاویر اور پیغامات ڈاؤن لوڈ کرنے کا مسئلہ حل ہوگیا۔

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے