چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب کے لیے مزید 6 الیکشن ٹربیونلز – Election Tribunals in Punjab – تشکیل دے دیئے ہیں، واضح رہے کہ یہ وہی فیصلہ ہے جسے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدارتی آرڈینینس کے ذریعے ای سی پی کو ریٹائرڈ ججز کو الیکشن ٹربیونلز کا سربراہ مقرر کرنے کا اختیار ملنے کے بعد بے معنی قرار دیا تھا۔
رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ چودھری عبدالرشید عابد کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے درخواست نمبر 25985/24 کے عدالتی فیصلے تحت عام انتخابات 2024 کے لئے مخصوص علاقوں کے کیسز سننے کے لئے الیکشن ٹربیونلز قائم کئے ہیں۔
نئے بنائے گئے الیکشن ٹربیونلز کے علاوہ لاہور اور ملتان میں کے الیکشن ٹربیونلز کے دو ججز کو ان کے ملحقہ اضلاع اور تحصیلوں حلقوں میں دوبارہ تعینات کر دیا گیا ہے۔
لاہور اور متعلقہ تحصیلوں کے کیسز کے لئے جسٹس انوار حسین، گوجرانوالہ، گجرات، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین اور نارووال کے لیے جسٹس شاہد کریم، فیصل آباد، چنیوٹ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، پاک پتن، اوکاڑہ، سرگودھا اور خوشاب کے لیے جسٹس چودھری محمد اقبال الیکشن ٹربیونلز کے سربراہ مقرر کئے گئے ہیں۔
Chief Justice Lahore High Court Malik Shahzad Ahmed Khan Forms 6 Election Tribunals in Punjab, read the details about names and areas in Urdu
جہلم، چکوال، اٹک، میانوالی، تحصیل سرائے عالمگیر اور راولپنڈی کے حلقوں سے متعلق الیکشن کیسز کی سماعت کے لیے جسٹس مرزا وقاص رؤف کو راولپنڈی الیکشن ٹربیونل کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان اور لودھراں کے حلقوں پر مشتمل الیکشن ٹربیونل کا سربراہ لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ کے جسٹس عاصم حفیظ کو مقرر کیا گیا ہے۔
ملتان، بھکر، خانیوال، وہاڑی اور ساہیوال کے حلقوں سے متعلق الیکشن کیسز کی سماعت کے لیے جسٹس راحیل کامران شیخ کو ملتان الیکشن ٹربیونل کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
الیکشن ٹربیونلز کے سربراہان کو تفویض کردہ علاقے
جسٹس سلطان تنویر اور جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کو لاہور اور ملتان کے موجودہ الیکشن ٹربیونلز میں انتخابی تنازعات کی سماعت کا دائرہ کار دوبارہ تفویض کر دیا گیا ہے۔
جسٹس تنویر قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور سیالکوٹ کے حلقوں سے متنازعہ الیکشن کیسز کی سماعت کریں گے جبکہ جسٹس ڈوگر ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفر گڑھ اور راجن پور کے حلقوں سے متعلق انتخابی معاملات کی سماعت کریں گے۔
الیکشن ٹربیونلز اور علاقوں سے متعلق جسٹس شاہد کریم کا فیصلہ
اس سے قبل 29 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ حلقہ (این اے 128) لاہور اور راؤ عمر ہاشم خان حلقہ (این اے 139) پاکپتن کی درخواستوں کو منظور کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بجٹ میں استعمال ہونے والی اہم اصطلاحات، جو ہر پاکستانی شہری کو لازماً معلوم ہونی چاہئیں
جسٹس شاہد کریم نے اپنے حکم نامے میں الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بھیجے گئے ناموں کے مطابق ایک ہفتے کے اندر پنجاب کے لئے مزید 6 الیکشن ٹربیونلز کا نوٹیفکیشن جاری کرے، بصورت دیگر یہ نام حتمی تصور کئے جائیں گے اور عدالتی معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا، فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن الیکشن ٹربیونلز کو تفویض کردہ علاقوں کے معاملات سے بھی چیف جسٹس کو آگاہ کرے۔
الیکشن کمیشن اپیل دائر کرے گا
الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق الیکشن ترمیمی آرڈیننس برائے 2024 کے بعد لاہور ہائیکورٹ کا حکم بے معنی ہے اور اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے لاہور ہائیکورٹ کے نوٹیفائی کرنے کے حکم کے بارے میں ریمارکس دیئے تھے کہ قانون نے الیکشن کمیشن کو الیکشن ٹربیونلز کی تقرری کا اختیار کیوں دیا ہے؟
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ کیا ہمارا کردار محض ایک ڈاک خانے کا ہے؟
جسٹس شاہد کریم نے الیکشن کمیشن کے اختیارات کے خلاف تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کی درخواست پر سماعت کی
الیکشن کمیشن کے اختیارات کیخلاف کیس کی سماعت
دوسری جانب جسٹس شاہد کریم نے این اے 128 لاہور سے پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار سلمان اکرم راجہ کی الیکشن کمیشن کے اختیارات کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی، درخواست میں اپیل کی گئی تھی کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ریٹائرڈ ججز کی بطور سربراہ الیکشن ٹربیونلز تقرر کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
الیکشن کمیشن کے اختیارات کے حوالے سے بیرسٹر سمیر کھوسہ کی جانب سے بھی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 151 کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس کے تحت الیکشن کمیشن کو انتخابی درخواستوں کو ایک ٹربیونل سے دوسرے ٹربیونل میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
درخواست کے مطابق الیکشن (ترمیمی) آرڈیننس 2024 کے تحت ایکٹ کی دفعہ 140 میں ترمیم کر کے الیکشن کمیشن کو ریٹائرڈ ججز کو الیکشن ٹربیونلز کے سربراہ تعینات کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ٹربیونلز سے انتخابی درخواستوں کی منتقلی کے اختیارات عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے مترادف ہیں۔
درخواست میں لاہور ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ دفعہ 151 کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے، جس کے لئے دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ سابق ججوں پر مشتمل الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ کے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے فیصلے اور جسٹس شاہد کریم کے فیصلے کے خلاف بعد ازاں اپیل دائر کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا ہے۔
موقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے اور ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کے اختیارات کو استعمال کرنے کی مجاز نہ ہے، کورٹ کا ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ قانون کے خلاف ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے اپیل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کل ہی ہائیکورٹ کے فیصلے کو سماعت کے لئے مقرر کرے اور اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
دونوں آئینی اداروں میں اختیارات کی یہ لڑائی کون سا رخ اختیار کرتی ہے اس کا فیصلہ تو سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد ہی ہو گا لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس لڑائی میں انصاف کا کھل عام قتل عام ہو رہا ہے۔