القادر ٹرسٹ کیس: عمران خان کے بعد ملک ریاض اور بحریہ ٹائون ریاستی اداروں کے زیر عتاب آ گئے

کافی وقت سے بحریہ ٹائون کے بانی ملک ریاض پر بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں وعدہ معاف گواہ بننے کے لئے دبائو قائم ہے اور اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً نئی نئی افواہیں سامنے آتی رہی ہیں۔

لیکن پچھلے کچھ دنوں سے یہ معاملہ سنگین صورتحال اختیار کرتا نظر آتا ہے، جیسے جیسے عمران خان کی رہائی کے دن نزدیک آتے جا رہے ہیں ویسے ویسے ریاستی اداروں اور حکومت کی بوکھلاہٹ اور انتقامی کارروائیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں نظر آ رہا ہے۔

ویسے تو پاکستان تحریک انصاف کے ایسے کئی رہنماء ہیں جن کے کاروبار تباہ کئے گئے، فیکٹریاں سیل کی گئیں، ٹرانسفارمر اتار لئے گئے، گھر منہدم کر کے انہیں اغواء تک کر لیا گیا لیکن اس وقت جو شخصیت ریاستی اداروں کے زیر عتاب ہے وہ کوئی عام شخص نہیں بلکہ ملک کا سب سے بڑا انویسٹر اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور اس کا کی ہائوسنگ سوسائٹی بحریہ ٹائون ہیں۔

بحریہ ٹائون کے ہیڈ آفس پر چھاپے کی تفصیلات

ملک ریاض کے بحریہ ٹائون فیز 2 میں واقع دفاتر میں قومی احتساب بیورو [نیب]، کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی [سی ڈی اے]، اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس نے مشترکہ طور پر چھاپہ مارا ہے۔

 ذرائع نے بتایا ہے کہ چھاپہ مارنے والی ٹیم میں 50 سے 60 لوگ شامل تھے جنہوں نے اپنے چہروں کو ماسک سے ڈھکا ہوا تھا جبکہ  پولیس اہلکاروں نے تمام دفاتر کو محاصرے میں لے رکھا تھا۔

چھاپہ مارتے ہوئے قانونی اداروں کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود نہ صرف دفاتر کے دروازے شیشے اور کھڑکیاں توڑی گئیں بلکہ دفاتر کے عملے کو بھی حراست میں لے کر گھنٹوں تک تفتیش کے نام پر حراس کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔

9 سے 10 گھنٹوں پر محیط اس چھاپے کے دوران بحریہ کے آفسز سے نیب ٹیم تمام تر ریکارڈ ضبط کر اپنے قبضے میں کر لیا گیا اور اہم دستاویزات اور فائلیں ساتھ لے گئے اور ساتھ میں آفسز کو سیز بھی کر دیا گیا۔

چھاپہ مارنے کی وجوہات

بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کی ایف آئی آر درج ہوئی تو اس کے ساتھ بحریہ ٹائون کے بانی ملک ریاض اور سی ای او احمد علی ریاض پر بھی ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس میں ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی کو اشتہاری قرار دے دے کر پاکستان میں ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے تھے جبکہ ان کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ وہ متحدہ عرب امارات میں کہیں روپوش ہیں۔

ملک ریاض کے دعوے

تین دن قبل 26 مئی کو ملک ریاض نے اپنے آفیشل ایکس [ٹوئٹر] اکائونٹ سے ایک ٹوئٹ کی تھی، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کس طرح ان پر القادر ٹرسٹ کیس میں وعدہ خلاف معاف بننے کے لئے دبائو ڈالا جا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بنائے جانے والے دبائو اور ہتھکنڈوں کے سامنے نہیں جھکیں اور اگر کوئی مجھ سے یہ کروانا چاہتا ہے تو اسے میری ڈیڈ باڈی سے گزرنا ہو گا۔

بظاہر ملک ریاض نے ایکس پر اپنے بیان میں کسی کا نام نہیں لیا کہ کون ہے جو دبائو بنا رہا ہے اور نہ ہی انہوں نے القادر ٹرسٹ کیس کا نام لیا لیکن یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ بیان کس تناظر میں دیا گیا ہے۔

ملک ریاض کی آڈیو لیک، خطرناک دھمکیاں

ایکس پر ملک ریاض کے بیان کے علاوہ سوشل میڈیا پر ان کی ایک آڈیو بھی گردش کر رہی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی کتاب کھولی اس دن پاکستان میں زلزلہ آ جائے گا، میں بہت سے معاملات میں شریک رہا ہوں اور میرے پاس بتانے کے لئے بہت کچھ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی ترقی کے  خواہاں لیکن اگر انہوں نے ملک کو تباہ کرنا ہے اور مجھے زیادہ مجبور کیا گیا تو میں سب بتائوں گا جو کہ میں نے پہلے ہی ریکارڈ کر کے رکھ لیا ہوا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر مجھے اپنی زندگی ختم کرنی پڑی تو اس سے پہلے سب راز کھول کر دنیا سے جائوں گا۔

ملک ریاض کے ٹوئٹر پر بیان اور آڈیو لیک کے دو دن بعد ریاستی اداروں کے بحریہ ٹائون کے آفسز پر چھاپے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک ریاض نے کسی نامعلوم لیکن طاقت ور کے سامنے جھکنے اور اس کے اشاروں پر ناچنے سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد اب ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور امید واثق ہے کہ یہ سلسلہ اب آگے ہی بڑھتا جائے اور نہیں معلوم اس کا انجام کیسا ہو گا۔

چھاپے کے دوران نیب ٹیم کا صحافی پر تشدد

نیب کی ٹیم نے بحریہ ٹائون چھاپے کے دوران کوریج کرتے ہوئے ایکسپریس نیوز کے رپورٹر صالح مغل کو تشدد کا نشانہ بنایا، پکڑ کر ایک کمرے میں بند کر دیا اور کئی گھنٹے تک حبس بے جا میں رکھا، صحافی کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے انہیں ان کی گاڑیوں سے زبردستی نکالا اور گھسیٹتے ہوئے اندر لے گئے جہاں پر ان کا موبائل چھین کر تمام فوٹیج ڈیلیٹ کر دی گئی اور اس دوران انہیں مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

چھاپے کے بعد ملک ریاض کا رد عمل

ملک ریاض نے اپنے ایکس اکائونٹ پر چھاپے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں، مجھ پر جو چاہے ظلم کرو لیکن میں وعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا، میرے دفاتر پر سرکاری مشینری نے بغیر کسی قانونی اختیار کے چھاپے مارے ہیں جن کی میں مذمت کرتا ہوں۔

ملک ریاض نے تازہ ٹوئٹ میں دعوی کیا ہے کہ ریاستی ادارے سکیورٹی عملے کو اغوا کر کے لے گئے ہیں، 5 ہزار سے زائد اہم پروجیکٹس کی فائلیں، آفس ریکارڈ، 23 کمپیوٹر، نیٹ ورک ڈیٹا، محکمانہ کیش اور اس کے ساتھ آفسز کے استعمال کی 9 گاڑیوں کو بھی زبردستی لے گئے ہیں جبکہ آفسز کو پہنچائے گئے نقصان کا تخمینہ تقریباً 50 لاکھ کے قریب ہے جبکہ عملے کے 9 اراکین کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ کہاں ہے۔

ملک ریاض نے چھاپوں کو بد معاشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں ان ہتھکنڈوں کی وجہ سے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا، ان کا کہنا تھا کہ ان ہتھکنڈوں سے یہ صرف مجھے نہیں بلکہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ انڈسٹری اور سرمایہ کاری کو متاثر کر رہے ہیں اور ملک کی معاشی ترقی کو روک رہے ہیں، عوام کو دیکھنا ہو گا کہ یہ سب اصل میں کیا ہے اور کون کر رہا ہے؟

مزید پڑھیں: امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی پی ٹی آئی قیادت سے اہم ملاقات، ضرورت یا مجبوری؟

انہوں نے قانون پر یقین کا اظہار کرتے ہوئے اعلی حکام سے بحریہ ٹائون کے عملے کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تمام دستاویزات اور ضبط سامان واپس کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ وہ عملے کی رہائی کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، آخر میں ملک ریاض نے عوام سے اپیل کی کہ وہ قانونی کی حکمرانی کی بحالی کے لئے ان کا ساتھ دیں۔

القادر ٹرسٹ کیس میں الزامات اور رقوم

القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کے الزامات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ نے ملک ریاض سے ان کے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کی مد میں بحریہ ٹائون لمیٹڈ سے القادر یونیورسٹی کے لئے سینکڑوں کنال اراضی حاصل کی، یہ 50 ارب روپے برطانوی حکام کی جانب سے پاکستان کو واپس کئے جانے والے 190 ملین پائونڈ کی رقم میں شامل تھے۔

 واضح رہے کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے برطانیہ سے بھیجی گئی رقوم اور مقامی طور پر جمع کرائی گئی رقوم میں سے عدالت نے 65 ارب روپے مرکزی اور سندھ حکومت کو منتقل کرنے کا حکم دیا تھا، وفاقی حکومت کے لیے مختص 35 ارب روپے 2019 میں اس وقت بیرون ملک سے بھیجے گئے تھے جب برطانیہ کی ایک عدالت نے ملک ریاض خاندان کا بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیا تھا۔

نیب کا چھاپے پر تبصرہ کرنے سے انکار

ان فنڈز کا تعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے زیر تفتیش 190 ملین پاؤنڈ ز کے کیس سے تھا، ترجمان نیب نے رابطہ کرنے پر بحریہ ٹائون آفسز پر چھاپے کے حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

al qadir trust casebahria town officechairmain bahria townimran khanmalik riazMalik riaz audioMalik riaz statementMalik riaz tweetWhere is malik riaz now