Operation Azm E Istehkam explained in Urdu
  • آپریشن عزم استحکام "Azm E Istehkam” دو بنیادی مقاصد پر مبنی ہے جس میں پہلا داخلی سلامتی اور دوسرا سرحد پار افغانستان سے دہشتگردوں کا خاتمہ ہے۔
  • پاکستان چین کی مدد سے طالبان حکومت کو افغانستان سے دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے اور دہشتگردوں کیخلاف حتمی کارروائیوں پر قائل کرنے کے لئے سفارشی مشن شروع کرے گا

اے پی ایس 2014 کے سانحے کے بعد بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے تشکیل شدہ پاکستان کی سینٹرل اپیکس کمیٹی  “central apex committee” کے اجلاس میں سول قیادت اور ملٹری بیورو کریسی “military bureaucracy” کی جانب سے دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خاتمے کے لئے آپریشن عزم استحکام کے نام سے نئے ملٹری آپریشن کی منظوری دی گئی ہے۔

سیاسی ذرائع کے مطابق آپریشن عزم استحکام "”Azm E Istehkam دو مرکزی نکات پر مشتمل ہے جس میں پہلا پاکستان میں داخلی سطح پر سلامتی و استحکام اور دوسرا ہمسایہ ملک افغانستان سے عسکریت پسندوں سے لاحق دہشتگردی جیسے بیرونی خطرات پر توجہ مرکو کرنا ہے۔

رواں سال 2024 کے پہلے پانچ ماہ میں پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں 83 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، یہ اضافہ وہ بنیادی وجہ ہے جو ملٹری بیورو کریسی “military bureaucracy” کو پاکستان میں نیا ملٹری آپریشن شروع کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے جس کی تفصیلات پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے مندوب منیر اکرم کے ذریعے 21 جون کو جمعے والے دن ہی پیش کر دی تھیں۔

Islamabad : Prime Minister Muhammad Shehbaz Sharif chairs a meeting of Central Apex Committee of National Action Plan on 22 June 2024.
Islamabad : Prime Minister Muhammad Shehbaz Sharif chairs a meeting of Central Apex Committee of National Action Plan on 22 June 2024 – Photo PID

آپریشن عزم استحکام کے اہم نکات:

  • افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان [ٹی ٹی پی] کی پناہ گاہوں کے لئے نئے سفارتی مشن شروع کیا جائے گا
  • افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کی روک تھام کے لئے اور طالبان حکومت کو قائل کرنے کے لئے چینی حکومت سے تعاون حاصل کیا جائے گا۔
  • دہشت گرد تنظیموں کے خلاف طاقت کا استعمال، مسلح آپریشنز اور انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں کو تیز کیا جائے گا
  • دہشتگردوں کے خلاف بغیر کسی رنگ و نسل کی تفریق کے بلا امتیاز کارروائیاں کی جائیں گی۔
  • دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے دوران کسی دہشتگرد کے ساتھ کوئی امتیاز سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔
  • دہشتگرد پنجابی ہو، سندھی ہو، پختون ہو، گلگتی ہو یا کشمیری ہو، قومیت دیکھے بغیر کارروائی عمل میں لائی جائیں گی۔
  • ریاست مخالف انتہاء پسندوں اور مذہبی جنونیت پسندوں چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں کے خلاف آپریشن کا دائرہ کار بڑھا کر کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
  • آپریشن عزم استحکام کے تحت کسی بھی ایسے گروہ یا فرد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی جو ریاست کو غیر مستحکم کرنے یا قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے گا۔

How was Operation "Azm E Istehkam” planned? What are the objectives of the Military establishment? What is China’s role? Explained in Urdu


افغان امور پر پاکستان کی نئی حکمت عملی:

اگست 2021 میں امریکہ کی افغانستان سے واپسی اور کابل میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں اضافے سے اسلام آباد میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔

ذرائع کے مطابق آپریشن عزم استحکام "”Azm E Istehkam کے تحت پاکستان کی جانب سے ہمسایہ ملک افغانستان سے دہشتگردی کے خطرات کے خاتمے کے لئے نئے سرے سے سفارتی مشن شروع کیا جائے گا اور طالبان حکومت کو افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے پر قائل کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔

اس حوالے سے پاکستان نئے سفارتی منصوبے کے مطابق طالبان حکومت سے نئے سرے سے رابطہ قائم کرے گا اور انہیں افغانستان سے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کے وعدوں کو پورا کرنے کا موقع دے گا۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس عالیہ نیلم کون ہیں؟ انصاف کی رانی یا شریف فیملی کی نوکرانی؟

کابل میں جب سے طالبان کی حکومت قائم ہوئی پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہر گزرتے ماہ و دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، مجبوراً پاکستان طالبان حکومت کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان [ٹی ٹی پی] کے حوالے سے ان کی حکمت عملی پر نظرثانی پر قائل کرنے کے لئے چین سے مدد حاصل کرے گا، چین کو افغانستان میں پاکستان پر فوقیت حاصل ہے اور چین کے طالبان کے ساتھ اہم اور تاریخی تعلقات قائم ہیں۔

پاکستان کی داخلی و خارجی سلامتی اور چینی مفادات

پاکستان میں دہشتگردی کے مسلسل بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے چین کی پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری اور جاری منصوبوں پر شدید تحفظات ہیں نیز پاکستان کی داخلی و خارجی سلامتی چین کے وسیع تر مفاد میں ہے، گزشتہ دنوں چین کے خارجہ امور کے ایک اہم وزیر نے پاکستان کے دورے کے دوران عوامی سطح پر پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان میںِ چینی شہریوں پر حملوں کی وجہ سے چینی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔

Group Photo of Pakistani Politicians with Mr. Liu Jianchao, Minister for International Department of the Communist Party of China in chinese embassy
Group Photo of Pakistani Politicians with Mr. Liu Jianchao, Minister for International Department of the Communist Party of China in chinese embassy

چینی وزیر نے پاکستان میں چین کی مستقبل کی سرمایہ کاری کو پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال اور سیاسی استحکام کے ساتھ جوڑتے ہوئے حالات کو نارمل کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔

چینی وزیر کے بیان کے محض ایک دن بعد ہی وزیر اعظم شہباز شریف کی سرپرستی میں پاکستان کی سول قیادت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ “military bureaucracy” نے اپیکس “central apex committee” کا اجلاس بلا کر دہشت گردی کے خلاف نئے ملٹری آپریشن عزم استحکام "”Azm E Istehkam کی منظوری دے دی۔

واضح رہے کہ ایسے آپریشنز کے لئے طویل پلاننگ اور حکمت عملی درکار ہوتی ہے، ممکنہ طور پر یہ منصوبہ بہت پہلے سے تیار تھا جسے چینی وزیر کے بیان کے تناظر میں پیدا ہونے ماحول میں اپیکس اجلاس بلا کر منظور کر لیا گیا اور ظاہر یہ کیا جا رہا ہے کہ چین کے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے تحفظات و خدشات وہ اہم عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ملٹری آپریشن شروع کرنے پر مجبور ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کی پیش بندی

پاکستان یقین رکھتا ہے کہ دہشت گردی کے حملوں میں اضافے کا بنیادی محرک افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خفیہ ٹھکانے ہیں، اس سلسلے میں جمعے والے دن 21 جون کو اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو تفصیل سے بریفنگ دی تھی جس کے تانے بانے پاکستان میں 22 جون کو منظور ہونے والے آپریشن عزم استحکام سے جا ملتے ہیں۔

منیر اکرم کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندر اور باہر دہشت گردی کا خاتمہ بین الاقوامی برادری، افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور خود افغانستان کی بھی اولین ترجیحات میں ہے،  داعش کیخلاف طالبان حکومت کی کارروائیوں کے باوجود القاعد، ٹی ٹی پی، ای ٹی آئی ایم اور آئی ایم یو سمیت متعدد دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان نے طالبان حکومت پر زور دیا کہ وہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کے خلاف موثر اور ٹھوس کارروائیاں عمل میں لائے، پاکستان کے مطابق سرماریہ کاری، ترقیاتی منصوبوں اور سٹرکچر کی تعمیر جیسے اہداف اس وقت تک حاصل نہیں کیا جا سکتے جب تک یہ دہشت گرد گروہ افغانستان کے اندر اور باہر آزادانہ طور پر کارروائیاں کرتے رہیں گے۔

پاکستان کے خدشات اور اقوام متحدہ سے مطالبات:

پاکستان نے اقوام متحدہ میں تحریک طالبان پاکستان [ٹی ٹی پی] کو پاکستان کے لئے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کی تفصیلات پیش کیں جن کے مطابق ٹی ٹی پی نے جدید ہتھیاروں کے حصول کے بعد سرگرمیوں میں تیزی لاتے ہوئے حملوں میں اضافہ کیا جس سے پاکستان کو سینکڑوں سویلینز اور فوجی ہلاکتوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔

منیر اکرم کے مطابق پاکستان کی جانب سے طالبان حکومت سے ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے، سرحد پار سے پاکستان میں حملوں کو روکنے، جنگجوئوں کو غیر مسلح کرنے اور دہشت گردوں کی حوالگی کے بار بار کے مطالبات کے باوجود کوئی اہم کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور پاکستانی سرحدوں کے قریب ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں بدستور موجود ہیں جبکہ افغانستان سے ہونے والے حالیہ حملے میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے والے متعدد چینی انجینئرز اپنی قیمتوں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کے ساتھ تعلقات کے خاتمے، پاکستان کے خلاف سرحد پار حملوں کو روکنے، دہشتگردوں کو غیر مسلح کرنے اور ٹی ٹی پی کے ذمہ داران کو پاکستان کے حوالے کرنے کے مطالبات سامنے رکھے۔

پاکستان نے سلامتی کونسل میں طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ عالمی قوانین اور روڈ میپ کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے، منیر اکرم افغانستان کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تمام ممکنہ ذرائع سے فنڈنگ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن اور ترقی پاکستان کی مجبوری ہے اور ہم ان مقاصد کے لئے دو طرفہ اور عالمی سطح پر کام کرتے رہیں گے۔

Mr. Liu Jianchao, Minister for International Department of the Communist Party of China calls on Prime Minister Muhammad Shehbaz Sharif on 21 June 2024.
Mr. Liu Jianchao, Minister for the International Department of the Communist Party of China calls on Prime Minister Muhammad Shehbaz Sharif on 21 June 2024 – Photo PID

آپریشن عزم استحکام Azm E Istehkam اور اندرونی سلامتی

پاکستان کی سول قیادت اور ملٹری بیورو کریسی “military bureaucracy” نے آپریشن عزم استحکام "”Azm E Istehkam کے تحت عندیہ دیا ہے کہ پاکستان کی اندرونی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے دہشتگرد تنظیموں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ مسلح آپریشنز کو بغیر کسی رنگ و نسل اور قومیت کی تفریق اور یہ دیکھے بغیر کے دہشتگرد چاہے پنجابی، سندھی، پختون، بلوچی، گلگتی یا کشمیری ہے تیز کیا جائے گا نیز ریاست مخالف انتہاء پسندوں اور مذہبی جنونیوں چاہے وہ کسی بھی فرقے سے ہوں کیخلاف سخت کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔

آپریشن عزم استحکام کے اہم مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کسی بھی ایسے گروہ یا فرد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی جو ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی اعلی عدلیہ پر مقتدرہ کا کنٹرول، افسانہ یا حقیقت؟

یہ سوالات ابھی حل طلب ہیں کہ اعلامیہ میں پاکستان کی تمام قومیتوں میں دہشت گردوں کا ذکر کیا گیا ہے، بلوچستان میں تو علیحدگی پسند مسلح تنظیمیں کام کر رہی ہیں لیکن باقی صوبوں میں ایسی کوئی تنظیمیں اور دہشتگرد گروہوں کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا تو پاکستان کے تمام صوبوں میں یہ کون سے دہشت گرد ہیں جن سے پاکستان کی داخلی سلامتی کو خطرہ ہے؟

یہاں بڑا سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا آپریشن عزم استحکام Azm E Istehkam کے ذریعے گزشتہ تین سال سے جاری سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ اور اکھاڑ پچھاڑ کے عمل کو مزید تیز کرنے کی حکمت عملی تو نہیں بنائی جا رہی ہے؟

پاکستان کی سول قیادت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اس امر پر فوری وضاحت دینے کی ضرورت ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین سالہ ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے آپریشن کے اعلان کے بعد عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کو اپنے سیاسی وجود پر شدید تحفظات لاحق ہو چکے ہیں اور یہ اس آپریشن کو اپنے خلاف نئے محاذ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔


آپریشن عزم استحکام کیخلاف پی ٹی آئی کا سٹینڈ: جعلی ممبر اسمبلی خواجہ آصف منہ سے آگ اگلنے لگے

Operation Azm E Istehkam: PTI taking side of terrorists, Khawaja Asif
PMLN Leader Khawaja Asif

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما، فارم 47 پر ممبر قومی اسمبلی بننے والے، وفاقی وزیر دفاع  خواجہ آصف –Khawaja Asif – نے قومی اسمبلی میں آپریشن عزم استحکام – Azm E Istehkam Issue – دھواں دار خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر فوج کے خلاف دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

  • آپریشن عزم استحکام کی منظوری کے وقت اپیکس کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے اراکین اور وزیراعلی کے پی کے علی امین گنڈا پورا بھی موجود تھے
  • پاکستان تحریک انصاف آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کر کے پاک فوج کے خلاف دہشتگردوں کی حمایت کر رہی ہے

یہ الزام وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے ایک روز بعد سامنے آئی ہے جس میں پاکستان سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے "آپریشن عزم استحکام” جیسے متنازعہ ملٹری آپریشن کی منظوری دی گئی ہے۔


Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) is supporting terrorists against Pakistan Army by opposing Operation Azm E Istehkam Issue, Khawaja Asif Says in National Assembly speech


اتوار کے قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن پر خواجہ آصف کو سپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق نے بجٹ پر بات کرنے کے لئے موقع دیا تو ان کے خطاب سے قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو خواجہ آصف کے کان میں "انہاں نوں تن دیو مائیک نہیں چھڈنا” کہتے سنا گیا ۔

اس کے بعد خواجہ آصف نے منہ سے آگ اگلتے ہوئے بجائے بجٹ پر بات کرنے کے آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے پی ٹی آئی پر دہشتگردوں کی سائیڈ لینے کا الزام لگا دیا۔

خواجہ آصف –Khawaja Asif -کی اسمبلی میں آگ اگلتی تقریر:

خواجہ آصف نے اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا کہ پی ٹی آئی فوج کے خلاف دہشت گردوں کے ساتھ کھڑی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی آواز کو دبایا جا رہا ہے، سوات، سرگودھا اور فیصل آباد میں قتل عام ہو رہا ہے، مذہب کے نام پر خون ریزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

خواجہ آصف نے وضاحت کی کہ آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ہوا جس میں پی ٹی آئی کے اراکین اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا (کے پی) الی امین گنڈا پور شامل تھے اور ان کی موجودگی میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی کمیٹی اپیکس نے اس آپریشن کی منظوری دی۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ آپریشن عزم استحکام کے معاملے کو ایوان میں پیش کریں گے، اگر پی ٹی آئی کو اعتراض ہے تو وہ اس پر بات کر سکتے ہیں لیکن وہ فوج کے خلاف دہشتگردوں کی حمایت میں احتجاج کر رہے ہیں۔

آپریشن استخام پاکستان شروع کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ایپکس کمیٹی نے پہلے نامکمل آپریشنز جاری رکھنے کی منظوری دے دی ہے اور یہ فیصلہ کابینہ اور پھر پارلیمنٹ میں لایا جائے گا۔

پی ٹی آئی کا خواجہ آصف کے الزام کے بعد اسمبلی میں رد عمل:

خواجہ آصف کے اس بیان پر پی ٹی آئی نے اسمبلی میں شدید احتجاج کا مظاہرہ کیا اور وفاقی کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات فاٹا آپریشن اور پشتوں کی ہلاکتوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس شہزاد احمد کی عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر تنقید اور خاتمے کا عندیہ

بعد ازاں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف نے فلور پر بولنے کا موقع نہ ملنے پر احتجاجا پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کیا، واک آؤٹ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے زور دے کر کہا کہ فوج کو آپریشن شروع کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کے ذریعے اعتماد حاصل کرنا چاہیے۔

اپیکس کمیٹی اچانک کیسے جاگ گئی؟

واضح رہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اپیکس کمیٹی 2014 میں آرمی پبلک سکول اے پی ایس پر حملے اور بچوں کے قتل عام کے بعد قائم کی گئی تھی جو کہ کافی عرصے سے سلیپنگ موڈ میں تھی لیکن اچانک کچھ واقعات ہوتے ہیں اور اچانک ہی اپیکس کا اجلاس بلا کر ایک نئے ملٹری آپریشن عزم استحکام کی بھی منظوری دے دی جاتی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ خواجہ آصف نے جن واقعات کا ذکر کیا ہے یہ انہی کے دور حکومت میں ہوئے ہیں اور ان کی حکومت ان واقعات کو روکنے میں قطعی ناکام رہی اور اب ملٹری آپریشن کے ذریعے نامعلوم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف – Khawaja Asif – نے اسمبلی میں اس آپریشن کے حق میں دلائل دیتے ہوئے پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقلیتوں میں سب سے زیادہ مظالم ہزارا برادری پر ہوئے ہیں جو آج بھی جاری ہیں لیکن وہاں پر کسی ملٹری آپریشن کا آغاز آج تک کیوں نہ کیا گیا؟


اپوزیشن اور حکومت میں سرد جنگ: آپریشن عزم استحکام شروع، اسد قیصر اور مولانا نے سر جوڑ لئے

Operation Azm-e-Istehkam
Operation Azm-e-Istehkam
  • مولانا فضل الرحمان اور اسد قیصر کا خیبر پختونخواہ میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار
  • پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کا کے پی میں فوجی آپریشن کے سیاسی حل پر زور، مستقبل کے لئَ سیاسی لائحہ عمل کے لئے کمیٹی کی تشکیل
  • ملٹری آپریشنز زرد الفسار اور ضرب عضب میں جس طرح انتہاء پسندوں کو ٹارگٹ کیا گیا تھا کہیں نئے ملٹری آپریشن عزم استحکام کے ذریعے سیاسی لوگوں کو تو ٹارگٹ نہیں کیا جائے گا؟

پاکستان میں نئے ملٹری آپریشن – Operation Azm E Istehkam کے ایک دن بعد سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے اہم ملاقات ہوئی جس میں دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی کمیٹی کی تشکیل اور خدشات کو دور کر کے مستقبل کے لئے سیاسی حکمت عملی اور لائحہ عمل طے کیا گیا اور ملٹری آپریشن کے حوالے سے تحفظات پر گفتگو کی گئی۔

اجلاس میں پی ٹی آئی کے مرکزی ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری اخونزادہ حسین یوسفزئی بھی موجود تھے، کمیٹی دونوں جماعتوں کے درمیان مسائل کو حل کرنے اور ایک مربوط سیاسی حکمت عملی تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔

دونوں رہنماؤں نے ملک کی سیاسی صورتحال بالخصوص خیبر پختونخوا میں بگڑتی ہوئی امن و امان پر تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی جماعتوں کو صوبے میں امن کے قیام میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے اور ممکنہ حل کے طور پر فوجی کارروائیوں یا آپریشنز کو مسترد کرنا چاہیے۔

اسد قیصر کا موقف تھا کہ ہم کسی بھی ملٹری آپریشن کی حمایت نہیں کریں گے، اگر اس طرح کے حساس مسائل کو پارلیمنٹ میں نہیں لایا جاتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارلیمنٹ کی کوئی ویلیو یا حیثیت نہیں ہے۔


The question is whether political people will not be targeted like terrorists through Operation Azm E Istehkam?

افغان امور پر تجاویز

اسد قیصر اور مولانا نے قومی اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر اتفاق کیا، انہوں نے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا اور پڑوسی ملک کے ساتھ مثالی تعلقات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

دونوں رہنماؤں نے افغانستان کے ساتھ کراسنگ پوائنٹس پر اقتصادی راہداریوں کے قیام کی تجویز پیش کی، انہوں نے کہا کہ تجارتی سرگرمیوں میں اضافے سے خطے میں معاشی استحکام آئے گا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

مزید برآں، دونوں جماعتوں نے موجودہ بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے آئی ایم ایف پر مبنی اور عوام دشمن قرار دیا۔

دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ پیش رفت وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے ایک روز بعد سامنے آئی ہے جس میں ملک بھر سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے "آپریشن عزم استحکام” کی منظوری دی گئی ہے۔

Asad Qaiser meeting with Fazal ur Rehman
Asad Qaiser meeting with Fazal ur Rehman

اپیکس کا اجلاس اور آپریشن عزم استحکام کی منظوری

ہفتہ کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی کابینہ کے اہم اراکین نے شرکت کی جن میں نائب وزیر اعظم، وزیر خارجہ، وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ، وزیر قانون اور وزیر اطلاعات شامل تھے۔

اجلاس میں تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، مسلح افواج کے سربراہان، صوبائی چیف سیکرٹریز اور دیگر سینئر سویلین، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے حکام نے بھی شرکت کی۔

اپیکس نے انسداد دہشت گردی مہم اور داخلی سلامتی کی صورتحال اور نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومین اصولوں کی پیش رفت کا جائزہ لیا اور ان امور پر غور کیا گیا جن پر عمل درآمد کا فقدان تھا اور ترجیحی بنیادوں پر ان خامیوں کو دور کرنے پر زور دیا گیا۔

اجلاس میں انسداد دہشت گردی کے لئے ایسے لائحمہ عمل کو اپنانے پر زور دیا گیا جو قومی اتفاق رائے پر مبنی ہو، وزیراعظم شہباز شریف نے آپریشن عزم استحکام کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی مہم کو فعال کرنے کی منظوری دی۔

What is Operation Azm E Istehkam آپریشن عزم استحکام کیا ہے؟

آپریشن عزم استحکام کا مقصد پاکستان سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا فیصلہ کن خاتمہ ہے، اس کے ذریعے دہشتگردی کے خلاف متعدد محاذوں پر جاری کوششوں کو مربوط انداز میں آگے بڑھایا جائے گا نیز سیاسی اور سفارتی شعبوں میں علاقائی تعاون کے ذریعے دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوششوں کو تیز کیا جائے گا۔

آپریشن عزم استحکام – Operation Azm E Istehkam – سے سیاسی سطح پر دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں رکاوٹ بننے والی قانونی خامیوں کو دور کرنے کے لئے موثر قانون سازی کی جائے گی اور مجرموں کے لئے مثالی سزاؤں کو یقینی بنا کر قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں اور مسلح افواج کی تجدید ، کوششوں اور کارروائیوں کو تقویت دے کر ان کا مورال بلند کیا جائے گا۔

دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں کو آپریشن عزم استحکام کے ذریعے سماجی و اقتصادی اقدامات سے تقویت ملے گی جن کا مقصد عوام کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس سے انتہاء پسندی  کی حوصلہ شکنی ہو نیزاجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی کو بھی ریاست کے اختیار کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

چینی شہریوں کی سکیورٹی

اجلاس میں پاکستان میں چینی شہریوں کی فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا، وزیراعظم کی منظوری کے بعد ملک میں چینی شہریوں کے لیے سیکیورٹی فریم ورک کو بہتر بنانے کے لیے نئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جاری کیے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کرنے کے احکامات جاری کئے اور اس پر کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

واضح رہے کہ اقدامات ایسے وقت میں اٹھائے گئے ہیں جب گزشتہ دن چین کی سنٹرل کمیٹی برائے امور خارجہ کے وزیر نے اسلام آباد میں پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال کو چینی سرمایہ کاروں کے ناموزوں قرار دیا تھا اور پاکستان میں سیاسی و سکیورٹی استحکام کی ضرورت پر بات کی تھی۔

اختتامیہ

سوال یہ ہے کہ کیا آپریشن عزم استحکام Operation Azm E Istehkam کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی کے صورتحال کو کنٹرول کیا جا سکے گا؟ جبکہ پہلے بھی ایسے کئی آپریشنز کئے جا چکے ہیں نیز سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں جب پاکستان بدترین سیاسی و مالی بحرانوں کا شکار ہے آپریشن عزم استحکام کے اعلان کا مقصد کہیں ملٹری آپریشنز کے ذریعے سیاسی بحران کو ختم کرنا تو نہیں ہے؟

رد الفسار اور ضرب عضب میں جس طرح انتہاء پسندوں کو ٹارگٹ کیا گیا تھا آپریشن عزم استحکام میں سیاسی لوگوں کو تو ٹارگٹ نہیں کیا جائے گا؟

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے