دو دن قبل قوم کو خوشخبری سنائی گئی ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کی قسط ملنے کے بعد پاکستان اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ 2014 میں فلوٹ کئے گئے یورو بانڈز جو کہ اپریل میں میچور ہو رہے ہیں کی ادائیگی کر کے ڈیفالٹ سے بچ جائے گا۔
مزید خوشخبری یہ سنائی گئی کہ قسط ملنے سے زر مبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر ہو جائیں گے اور پاکستان ادائیگی کے قابل ہو جائے گا۔
Pakistan’s Eurobonds Scandal: Hidden Plans Within Plans
رئوف کلاسرہ کی یورو بانڈز میں کرپشن کی سٹوری:
سٹیٹس کو پاکستانی عوام کو کیسے بیوقوف بناتی ہے اور کس طرح عوام کی آنکھوں میں اندھا دھند دھول جھونکتی ہے اس کی مثال رئوف کلاسرہ کے آج کے کالم کے کچھ حصوں میں ملتی ہے۔
کالم میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بک میں شامل سلیم مانڈوی والا اور چودھری شجاعت کے حوالے سے 2014 میں نواز شریف کی وزارت عظمی کے دور میں اسحاق ڈار کے دس سالہ یورو بانڈز فلوٹ کرنے کی ایک ناقابل یقین کرپشن کی داستان بیان کی ہے۔
عالمی مارکیٹ کے خلاف بانڈز کا اجراء:
سٹوری کے مطابق 2014 میں نواز شریف حکومت نے ایسے وقت میں بانڈز جاری کئے جب ہائیسٹ مارک اپ ریٹ کی وجہ سے عالمی مارکیٹ کے حالات بانڈز کے اجراء کے لئے انتہائی نامناسب تھے اور دیگر تمام ضرورت مند ممالک بانڈز کے اجراء کو مناسب وقت کے انتظار میں روکے ہوئے تھے۔
دنیا کے ہائیسٹ پرافٹ ریٹ پر بانڈز کا اجراء
2014 میں عالمی مارکیٹ اس وقت ششدر رہ گئی جب نواز شریف حکومت نے 8.25 فیصد پرافٹ پر 500 ملین ڈالر کے یورو بانڈز ایشو کرنے کا اعلان کیا جبکہ اس وقت ڈیفالٹ کا خطرہ بھی نہیں تھا جبکہ انہی دنوں انڈین کمپنی نے بھی 700 ملین ڈالرز کے بانڈز ایشو کئے جن کی سالانہ پرافٹ ریشو محض 2.75 فیصد تھی۔
پاکستان کے بلند ترین شرح منافع پر 500 ملین ڈالرز کیسے فروخت ہوئے اس پر آگے بات کرتے ہیں لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ انڈین کمپنی کے کم ترین سالانہ شرح منافع پر بھی ان کے 700 ملین ڈالرز کے بانڈز ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئے جبکہ پاکستان کے بڑے منافع کے لالچ کے باوجود دنیا تذبذب کا شکار تھی۔
پاکستانی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ:
نواز حکومت نے مذکورہ یورو بانڈز کا اجراء کر کے عالمی مارکیٹ سے پاکستانی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ اٹھایا جس کے مطابق پاکستان نے دس سالوں میں 500 ملین ڈالرز پر 450 ملین ڈالرز یعنی تقریباً سو فیصد منافع دیا ہے تاہم یہ امر بھی اتنا سادہ نہیں ہے بلکہ اس قرضے کے پلان کے اندر بھی ایک پلان چھپا ہوا تھا۔
یورو بانڈز کے لئے 70 ملین ڈالرز کی بیرون ملک منتقلی
ن لیگ کی حکومت میں ہی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے سینٹ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا کہ کچھ لوگوں نے پاکستان سے 70 ملین ڈالرز باہر بھیج کر خود ہی جارے کئے گئے بانڈز کو چند بینکوں کے ذریعے خود ہی خریدا ہے۔
باوجود ڈیمانڈ کے وہ نام کمیٹی کو نہ بتائے گئے جنہوں نے یہ گھنائونی واردات ڈالی تھی۔
ڈاکٹر وقار مسعود جو کہ اس وقت سیکرٹری خزانہ تھے کو متعدد بار بلایا گیا لیکن وہ پاکستان سے ڈالر باہر بھیج کر بانڈز خریدنے والے لوگوں کا نام دینے سے انکاری رہے۔
پلان کے اندر پلان
بات صاف سمجھ آتی ہے کہ باقاعدہ پلان کر کے بلند ترین سالانہ شرح منافع پر مہنگا ترین قرضہ اٹھانے کے لئے بانڈز کا اجراء کیا گیا اور پھر ان بانڈز کا ایک بڑا حصہ خود ہی خرید کر تقریباً 100 فیصد منافع اینٹھ لیا گیا۔
آج اپریل 2024 میں قومی خزانے پر ڈاکے کی یہ خوفناک واردات آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کا قرضہ اٹھا کر تکمیل تک پہنچا دی گئی ہے۔
نہ کسی کے کان پر جوں رینگی اور نہ ہی ریاست کو کوئی فرق پڑا، پیسہ ہضم بات ختم
چوہدری شجاعت کے انکشافات
چوہدری شجاعت نے اس دوران رئوف کلاسرہ کو بلا کر اس ساری واردات کے پیچھے موجود لوگوں کے بارے میں بتایا اور ان تین خاندانوں کے بارے میں بھی بتایا جن کے فائدے کے لئے 25 کروڑ عوام کے سر پر تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ لادا گیا۔
چوہدری شجاعت کے مطابق یہ واردات باقاعدہ سوچ کر پلان کی گئی اور خریدار وہی تھے جن کے ہاتھوں میں یہ سارے فیصلے تھے، انہوں نے دو بڑے سیاسی گھرانوں کے علاوہ لاہور کے ایک بڑے بینکر کا بھی نام لیا جس کی جیب میں ان بانڈز کا منافع جا رہا تھا۔
اسحاق ڈار کی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ اٹھانے کی وضاحت
2014 میں ہی اسحاق ڈار سے جب صحافیوں کی جانب سے سوال ہوا کہ آپ نے تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ کیوں اٹھایا تو اسحاق ڈار نے قوم کے منہ میں پاکستانی ساکھ کا لالی پاپ دے دیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم عالمی مارکیٹ میں پاکستانی ریاست کی ساکھ چیک کر رہے تھے۔
یعنی ساکھ چیک کرتے کرتے قوم کو 450 ملین کا ٹیکہ لگا دیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے کیونکہ بانڈز خریدے بھی خود ہی گئے تھے۔
پاکستان کا ٹیکس ریونیو اور قرضوں کی ادائیگیاں
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ پاکستان قرضوں کی مد میں سات ہزار ارب روپے سود کی ادائیگیاں کرتا ہے جبکہ پاکستان کا کل ٹیکس ریونیو تقریباً 5 ہزار ارب روپے اکٹھا ہوتا ہے جو کہ قرض تو دور کی بات صرف سود کی ادائیگی کے لئے بھی ناکافی ہے۔
جبکہ سود سمیت اصل قرض کی ادائیگی مزید قرض لے کر کی جاتی ہے اور پاکستان جو کہ پہلے سے ہی قرضوں کے ایک نہ سلجھ سکنے والے جال میں الجھا ہوا ہے قرضوں کا یہ شکنجہ مزید سخت ہوتا جا رہا ہے۔
قرضوں کے لئے قرض اور پھر اس قرض کی بھی قرض لے کر ادائیگی:
حیرت اس بات پر ہی نہیں کہ 2014 میں یورو بانڈز فلوٹ کرنے کی بنیادی وجہ قرضوں کی ادائیگی تھی، حیرت اس بات پر بھی ہے کہ جو بانڈز 2014 میں قرضوں کی ادائیگی کے لئے فلوٹ ہوئے 2024 میں انہی بانڈز کے قرضوں کی ادائیگی آئی ایم ایف سے مزید قرض لے کر کی جا رہی ہے۔
اور قوم کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ جی ہم نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے، پاکستان کے حالات یہ ہو چکے کہ قرضہ لینا ایک کارنامہ بن گیا ہے اور اس رسوائی زدہ خبر کو خوشخبری کے طور پر نشر کرنے میں فخر محسوس کیا جا رہا ہے۔
ڈوب مرنے کے مقام کو فخر سے کارنامہ بنا کر بتانا بھی پاکستانی اشرافیہ کا ہی کام ہے ورنہ تو دنیا میں ایسی شرمناک حرکت کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
کیا رئوف کلاسرہ کی یہ کہانی سچ پر مبنی ہے؟
ایک بات تو واضح ہے کہ پاکستانی میڈیا اور سپیشلی وہ اینکر پرسن جو پچاس پچاس لاکھ کی تنخواہوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ان کی زبانیں مقتدرہ نے تالو تک اپنے شکنجے میں کسی ہوئی ہیں اور ان کی یہ مہنگی نوکریاں مقتدرہ کی ہی مرہون منت ہیں۔
ان نام نہاد صحافیوں کی مجال نہیں کہ وہ مقتدرہ کی مرضی کے بغیر ایک لفظ بھی ادا کر سکیں اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: MBS Free Hajj 2024 Sponsorship Scam Alert in Urdu
اس حقیقت میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ایسے تمام صحافیوں کے سکینڈل بریک کرنے کے پیچھے بھی مقتدرہ کے ہی لوگ ہوتے ہیں۔
شہید ارشد شریف، عمران ریاض، معید پیر زادہ اور وجاہت سعید سمیت متعدد صحافی ان باتوں کی گواہی دے چکے ہیں کہ وہ کیسے مقتدرہ کی دی ہوئی سٹوریز پر کام کرتے رہے۔
حقیقت یا پروپیگنڈا؟
سلیم مانڈوی والا اور چوہدری شجاعت کے حوالے دے کر رئوف کلاسرا نے اپنے کالم کو مستند تو بنا دیا ہے لیکن پریشان کن امر یہ ہے کہ Pakistan’s Eurobonds Scandal کے منظر عام پر آنے کے بعد پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا پر اس ایشو پر کہیں بھی بات نہیں ہو رہی ہے۔
کیا پاکستانی ریاست کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ رئوف کلاسرا کے الزامات پر تحقیق کریں اور اگر وہ جھوٹے ہیں تو ان کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور اگر وہ سچے ہیں تو اس بھیانک واردات کے پس پردہ عناصر چاہے وہ جو کوئی بھی ہیں اور چاہے کتنے بھی طاقت ور ہیںِ انہیں سزا دے کر عبرت کا نشان بنایا جائے۔
بالکل ویسے ہی جیسے آج ویتنام میں ایک ارب پتی طاقت ور شخصیت ٹرونگ مے لین کو مالیاتی فراڈ پر سزائے موت دے دی گئی ہے۔