Justice Malik Shehzad Ahmed Khan
  • درخواست گزار نے جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر بیٹے کے قتل کیس میں انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے۔
  • اس سے قبل سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی نقوی پر بھی جوڈیشل کونسل میں رٹ دائر کی گئی جس پر وہ مستعفی ہو گئے تھے

اسلام آباد : چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان کے خلاف آج 16 جون بروز اتوار کو سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کردی گئی ہے۔

یہ درخواست رفاقت علی تنولی نامی شہری نے دائر کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ جسٹس شہزاد ان کے بیٹے کے قتل کیس میں انصاف کے راستے میں رکاوٹ رکاوٹ بنے، اپنے عہدے کا غلط اور اثر و رسوخ کا غلط استعمال استعمال کیا۔

رفاقت علی تنولی نے یہ درخواست 29 مئی کو بزریعہ ڈاک سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کی، شکایت میں مبینہ طور پر 2022 میں سڑک کے ایک حادثے کا حوالہ دے کر موقف اپنایا گیا ہے کہ جسٹس شہزاد ے فوجداری کے کیس میں اپنے اثر و رسوخ کا غلط استعمال کیا ہے۔


A petition has been filed against Chief Justice Lahore High Court (LHC) Malik Shehzad Ahmed Khan in the Supreme Judicial Council (SJC)

جسٹس شہزاد کے خلاف پٹیشن کا پس منظر

رفاقت کے ذکر کردہ حادثے سے متعلق ایک کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت بھی ہے جس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس شہزاد کو تفتیش کا سامنا ہے۔

واقعہ اس طرح تھا کہ راولپنڈی اسلام آباد کو جوڑنے والے مشہور بائی باس فیض آباد انٹرچیج کے قریب ایک سرکاری گاڑی کو حادثہ پیش آیا جس میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے، مبینہ طور پر وہ گاڑی جسٹس شہزاد کو الاٹ تھی جو کہ ان کی بیٹی ڈرائیو کر رہی تھیں، یہ کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔

جسٹس شہزاد احمد کی سپریم کورٹ میں نامزدگی

گزشتہ دنوں جسٹس Malik Shehzad Ahmed Khan کی سپریم کورٹ میں بطور جج نامزدگی کی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے منظوری دی تھی۔

ججز کی تقرریوں کی پارلیمانی کمیٹی نے کی جانب سے بھی ان کی سپریم کورٹ میں نامزدگی کی منظوری بھی دے دی گئی تھی جس کا نوٹیفکیشن عید کے فوراً بعد جاری کئے جانے کا امکان ہے۔

لیکن سپریم کورٹ میں چارج سنبھالنے سے پہلے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں رٹ دائر کر دی گئی ہے حالانکہ مزکورہ کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔

جسٹس شہزاد احمد کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ کردار

دو دن قبل جسٹس شہزاد نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی پاکستانی جوڈیشری یعنی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد یہ مداخلت ختم ہو گی کیونکہ عدلیہ بلا خوف و خطر انصاف فراہم کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس شہزاد احمد کی عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر تنقید اور خاتمے کا عندیہ

چیف جسٹس نے سرگودھا کے سیشن جج پر ایجنسیوں کے دبائو کا حوالہ دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ عدالتی معاملات میں ایگزیکٹو کی مبینہ مداخلت کے حوالے سے یہ واحد شکایت نہیں ہے، دیگر کئی ججوں نے زبانی طور پر اسی طرح کی شکایات کی ہیں۔

جسٹس شہزاد کے خلاف سوشل میڈیا پر کمپین

جسٹس شہزاد کے راولپنڈی میں خطاب کے بعد ان کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں اور سوشل میڈیا پر حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے ان کے خلاف کمپین بھی شروع کر دی گئی تھی جبکہ مبینہ طور پر ان کی بیٹی کا شناختی کارڈ بھی پبلک کئے جانے کا واقعہ سامنے آیا ہے اور آج ہی ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں رٹ بھی دائر کر دی گئی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز کی جسٹس شہزاد سے ملاقات

کورٹ رپورٹ حسنات ملک نے اپنے ویڈیو ولاگ میں دعوی کی ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس شہزاد احمد سے ملاقات کی ہے لیکن ملاقات کا ایجنڈا ابھی تک سامنے نہیں آ سکا تاہم قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس میٹنگ میں جسٹس شہزاد کی عدلیہ میں مداخلت کی تقریر اور سوشل میڈیا پر ان کیخلاف کمپین پر بات چیت کی گئی ہو گی۔

ملاقات کے لئے کال بھی سپریم کورٹ سے گئی تھی اور ملاقات سپریم کورٹ میں ہی کی گئی ہے۔

ججز کے استعفے

پاکستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب اسٹیبلشمنٹ کے کسی ناپسندیدہ شخص کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہو، کچھ عرصہ قبل ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو سینئر ججز اور لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے بھی استعفی دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں اختیارات کی جنگ، الیکشن ٹربیونلز سپریم کورٹ میں چیلنج

سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی نقوی 10 جنوری کو مستعفی ہوئے، 11 جنوری کو جسٹس اعجاز الاحسن جو ممکنہ چیف جسٹس بھی تھے نے بغیر وجوہات بتائے استعفی دے دیا اور 2 فروری کو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان مستعفی ہو گئے تھے۔

مذکورہ تینوں ججز کے استعفوں کے حوالے سے رپورٹس ہیں انہوں نے مقتدرہ کے پریشر پر استعفے دے کر اپنی جان چھڑوائی جبکہ جسٹس مظاہر علی نقوی پر ابھی بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں کیس لگا ہوا ہے۔

اختتامیہ – Conculusion

ایسا لگتا ہے جیسے اب اگلا نمبر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا ہے جنہیں ہائیکورٹ سے پہلے سپریم کورٹ ترقی دی گئی اور چارج سنبھالنے سے پہلے ہی ان کیخلاف رٹ دائر کر دی گئی ہے۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی طاقت ور ان سے استعفی لینا یا انہیں عہدے سے ہٹانا چاہتا ہو۔

کیا جسٹس شہزاد پریشر برداشت کر پائیں گے یا وہ بھی مستعفی ہو جائیں گے ؟ کمنٹس میں ضرور بتائیے گا۔

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے