پیپلز پارٹی بھی ن لیگ کے نقش قدم پر، مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی

پاکستان پیپلز پارٹی بھی پاکستان مسلم لیگ ن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مخصوس نشستوں – Reserve Seats Case – کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کردی ہے۔

سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو مخصوص نشستوں کے کیس میں پابند سلاسل عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کے لئے اہل قرار دے دیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی جماعت بننے جا رہی ہے، اس فیصلے سے مقتدرہ سمیت حکمران اتحاد کو شدید صدمہ پہنچا۔

سپریم کورٹ کے پاکستان تحریک انصاف سے بلے کے انتخابی نشان چھینے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدواروں نے 8 فروری کے انتخابات میں آزادانہ حیثیت سے حصہ لیا تھا اور بڑی کامیابی حاصل کرنے کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شرکت اختیار کر لی تھی لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مختلف وجوہات تخلیق کیں اور پی ٹی آئی کے امیدواروں اور سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں میں بانٹ دیا۔

مخصوص نشستوں کے حصول کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انکار کے بعد سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا لیکن وہاں سے بھی انصاف نہ ملا تو سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دے دیا۔


Reserve Seats Case: PPP In Supreme Court for Review Petition

The Pakistan People’s Party (PPP) has also filed a review petition in supreme court of Pakistan to review the decision of Reserve Seats Case following the footsteps of the Pakistan Muslim League-Nawaz ( PML-N). in Urdu

پاکستان پیپلز پارٹی کی مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کی درخواست:

پیپلز پارٹی نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک کے ذریعے نظر ثانی کی درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت کے مختصر حکم سے مسئلہ حل نہیں ہوا اور متعدد سوالات اٹھائے ہیں جن میں نمایاں سوالات درج ذیل ہیں ۔۔۔

  • کیا آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدوار ایسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں جو اسمبلی کی کوئی سیٹ نہیں جیت سکی یا مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کے لئے مختص کی جائیں؟
  • کیا ایسی سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں دی جا سکتی ہیں جس نے انتخابی شیڈول کے تحت متعین مدت میں اپنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی بھی جمع نہ کروائے ہوں؟
  • پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کے حصول کا معاملہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست میں بھی نہیں ہے اس لئے سپریم کورٹ پی ٹی آئی کو ان نشستوں کی اجازت نہیں دے سکتی۔
  • پاکستان تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کے لئے نہ تو الیکشن کمیشن، نہ پشاور ہائیکورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ دائر کیا،  اس لئے پی ٹی آئی کسی ریلیف کی حقدار نہیں۔
  • سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے یہ بات ملحوظ نہیں رکھی کہ 80 ایم این ایز نے آزاد امیدواروں کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور بعد ازاں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے۔
  • سپریم کورٹ کی جانب سے قومی اسمبلی کے 41 آزاد امیدواروں کی کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کے لئے 15 دن کی مہلت آئین کے منافی ہے۔
  • آئین میں غیر واضح طریقہ کار کو وضع کر کے نظر ثانی کا حکم آئین کی تشکیل اور تشریح کے دائرے میں آتا ہے جبکہ عدالت کی جانب سے بے شمار بار یہ کہا گیا ہے کہ عدالت کا کام قانون سازی نہیں بلکہ قانون کی تشریح ہے۔
  • چونکہ فیصلہ مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہا لہذا یا تو ان مخصوص نشستوں کو خالی چھوڑ دیا جائے یا پھر الیکشن میں حصہ لینے والی دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا درخواست میں کہنا تھا کہ مذکورہ امیدواروں کے پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیئے جانے کو مفروضہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں متناسب نمائندگی کا نظام موجود ہے۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کا Reserve Seats Case پر موقف:

واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی بیرسٹر حارث عظمت کے ذریعے 15 جولائی کو دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئینی تشریح کی بجائے قانون سازی کے دائرہ کار میں آتا ہے جو کہ صرف پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔

لہذا سپریم کورٹ سنی اتحاد کونسل کا فیصلہ واپس لے، جب تک کیس زیر التواء ہے تب تک فیصلہ بھی معطل رکھا جائے کیونکہ پی ٹی آئی ریلیف کی حقدارنہیں ہے اور نہ ہی وہ مخصوص نشستوں کے حصول کی دعویدار ہے۔

متعلقہ خبر: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کا فیصلہ

مخصوص نشستوں کی تقسیم کا مسئلہ کیا ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یکم مارچ کو سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر یہ فیصلہ دیتے ہوئے کہ امیدواروں کی فہرست جمع کروانے کی آئینی شق کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے، لہذا قانونی طور پر مخصوص نشستوں کے حقدار نہیں ہے، مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔

الیکشن کمیشن کی تقسیم کے فارمولے کے تحت ن لیگ اور پی پی کو 16 سمیت 5 جبکہ جے یو آئی ف کو 4 اضافہ نشستیں دے کر حکمران اتحاد کو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت دلوا دی، سنی اتحاد کونسل نے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ چینلج کیا تو وہاں سے بھی فیصلہ ان کے خلاف آیا جس کے بعد اپریل صاحبزادہ حامد رضا مخصوص نشستوں کے کیس کو سپریم کورٹ میں فل بینچ کے پاس لے گئے۔

مخصوص نشستوں Reserve Seats Case کی تقسیم کا گورکھ دھندا:

سپریم کورٹ کی جانب سے 6 مئی کو پی ایچ سی سمیت الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کر کے مخصوص نشستیں کے نوٹیفکیشن واپس لینے کا حکم جاری کر کے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں 77 مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشن معطل کروا دیئے جن میں ن لیگ کے 44، پی پی کے 15، جے یو آئی ف کے 13، ایم کیو ایم، آئی پی پی ، ق لیگ اور پی ٹی آئی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔  

نوٹیفکیشن معطل ہونے کے بعد ن لیگ کے اراکین اسمبلی کی تعداد 121 سے کم ہو کر 107 جبکہ پی پی کے اراکین 72 سے 67 رہ گئی اور حکمران اتحاد پارلیمان میں 228 سے کم ہو کر 209 کے فگر سے دو تہائی اکثریت سے محروم ہو گیا جبکہ دو تہائی اکثریت کے لئے نشستوں کی تعداد کا 224 کا ہونا ضروری ہے۔

مخصوص نشستوں پر آئینی تنازعہ کیا ہے؟

مخصوص نشستوں – Reserve Seats Case – پر آئینی تنازعہ اس بات پر تھا کہ اگر یہ کوٹہ اسمبلیوں میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کو دیا جاتا ہے اور نہ ہی سنی اتحاد کونسل کو جو کہ 8 فروری کے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیتی اور بطور جماعت ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کر پاتی جو کہ مخصوص نشستوں کا آئینی تقاضہ ہے تو نشستیں کسے ملیں گی؟

سنی اتحاد کونسل نے اس آئینی تنازعے کی وضاحت اس طرح کی کہ متناسب نمائندگی کے تصور کے تحت یہ ضروری نہیں ہے کہ اسمبلیوں میں عام نشستیں رکھنے والی سیاسی جماعت نے الیکشن میں بھی حصہ لیا ہو۔

پاکستان تحریک انصاف کا موقف

جبکہ تحریک انصاف نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں پاکستان تحریک انصاف سے وابستگی کا حلف نامہ موجود تھا جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کھری کی گئی رکاوٹوں کی وجہ سے آزادانہ حیثیت میں بھی کاغذات جمع کروائے گئے لہذا تحریک انصاف مخصوص نشستوں کی حقدار ہے۔

جس کے ثبوت پاکستان تحریک انصاف کے ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کو دستاویزی شکل میں فراہم کئے گئے تھے۔

reserve seat case todayreserve seat hearingreserve seatsreserve seats casereserve seats case decisionreserve seats supreme courtreserve seats verdictreserved seats case in supreme court