Jane Marriott Vs Qafi Faiz Isa
  • برطانوی سفیر نے ایک تقریب میں پاکستانی انتخابی عمل کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں مکمل طور پر حصہ نہیں لینے دیا گیا جبکہ کچھ کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا۔
  • سپریم کورٹ آف پاکستان نے جوابی خط میں برطانوی حکومتوں کی ماضی کی غلطیوں کا ذکر کیا جس کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، کیا برطانوی حکومتوں کی ماضی کی غلطیاں سپریم کورٹ کے لوگوں کے حقوق غصب کرنے کا جواز ہیں؟
Supreme Court send Letter to British High Commissioner Jane Marriot, Criticism on Elections is unfair, says chief justice

پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کی ایک تقریب میں پاکستان کے انتخابی عمل کو غیر منصفانہ قرار دیئے جانے پر ایک خط میں انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں ان کے تحفظات غیر منصفانہ ہیں۔

3 مئی کو لکھے گئے خط میں برطانوی سفارت کار کی گزشتہ ماہ لاہور میں ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مقابلے میں مکمل طور پر حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی، انہوں نے پاکستانی کے قانونی عمل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ان کے انتخابی نشان سے بھی محروم کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن ٹربیونل ایشو: چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے نا ممکن کو ممکن کیسے بنایا؟

برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ کی بہت زیادہ شکایات سامنے آئیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے تھی کہ تحریک انصاف کی اعلی قیادت کو 9 مئی کے پر تشدد مظاہروں جو کہ عمران خان کی غیر قانونی گرفتاری کے نتیجے میں شروع ہوئے تھے کے بعد ریاستی اداروں کے کریک ڈائون کے دوران متعدد الزامات و مقدمات کے تحت قید کر دیا گیا جبکہ باقیوں کو تشدد و قتل کے خوف سے روپوش ہونا پڑا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں طویل عدالتی جنگ کے بعد پی ٹی آئی سے اس کا مشہور انتخابی نشان کرکٹ بیٹ  بھی چھین لیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا پڑا تھا جبکہ یہ بات بھی معنی خیز ہے کہ بہت پہلے کچھ دانشوروں نے یہ بات کھول دی تھی کہ آئندہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ہدایت پر لکھے گئے خط کا متن

سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے لکھے گئے خط میں وضاحت کی گئی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر فرد واحد کی آمریت کو ختم کرنے اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لئے قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرواتی ہے تو وہ انتخابی نشان کی اہل نہیں ہوگی، خط میں لکھا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ نافذ کردہ قانون (الیکشن ایکٹ، 2017) وقتا فوقتا انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لئے بنایا گیا ہے۔

خط میں برطانوی ہائی کمیشن کو وضاحت دی گئی ہے کہ ایک سیاسی جماعت (جس نے خود اس قانون کے لئے ووٹ دیا تھا) نے قانونی تقاضوں کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، سپریم کورٹ دیکھتی ہے کہ قانون کیا طے کرتا ہے، لہٰذا انتہائی احترام کے ساتھ عرض ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کیس کے فیصلے کے حوالے سے آپ کی تنقید غیر منصفانہ تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہدایت پر لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سماعت کی کارروائی عوام کے لیے ٹی وی پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی ایکسٹیشن کے لئے آئینی ترمیم، کیا ہونے جا رہا ہے؟

خط میں ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور رواں سال کے شروع میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو ممکن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا۔

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برطانیہ نے بھی ماضی میں کئی غلطیاں کی ہیں جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں کو ناقابل برداشت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، خط میں خاص طور پر 1953 میں ایران کے محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے اور Balfour Declarations کو اپنانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کا قیام ممکن بنایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے خط میں اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے بھی ایسا کیا جانا چاہئے نیز کہا گیا ہے کہ آئیے ہم سب مساوات، امن اور انسانیت کے لیے کھڑے ہوں۔

برطانوی حکام کا خط پر رد عمل

واضح رہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی ہدایت پر رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے یہ خط 3 مئی کو لکھا گیا تھا لیکن برطانوی حکام کی جانب سے اس خط کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے اور کسی قسم کا جواب دینا تو درکنار کوئی چھوٹا موٹا بیان بھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دبئی لیکس: پاکستان آرمی کے کن جرنیلوں اور سیاست دانوں کا نام شامل ہے؟

خط سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا

سپریم کورٹ کے خط کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد یہ خط ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے خط پر طرح طرح کے تبصرے کئے جا رہے ہیں، سوشل میڈیا پر اس خط پر میمز بنائی جا رہی ہیں اور ٹھٹھے اڑائے جا رہے ہیں، یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کس حیثیت میں یہ خط برطانوی حکام کو لکھا ہے؟ سپریم کورٹ کی ڈومین کیا ہے؟ اور کیا سفارتی معاملات میں سپریم کورٹ اس طرح براہ راست مداخلت کر سکتی ہے؟

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس طرح حکومتی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر سفارتی محاذ بھی سنبھالنا ہے تو عدالتی فرائض حکومت نے سنبھالنے ہیں؟

کسی سوشل میڈیا صارف کا یہ تبصرہ خاصہ دلچسپ ہے کہ خط چور کی داڑھی میں تنکا ہے۔

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے