swimsuit fashion show in saudia arabia

اسلامی ملک سعودی عرب میں حال ہی میں ریڈ سی فیشن ویک کا اہتمام کیا جس میں مختلف ممالک کی مشہور ماڈلز خواتین نے مختلف ڈیزائن  کے ملبوسات پہن کر کیٹ واک کی, یہ نمائش سینٹ ریجس پول پر منعقد ہوئی جہاں پس منظر میں کھجوروں کے درخت لگے ہوئے ہیں۔

ماڈلز نے تالاب کے کنارے پر بنے راستے پر کیٹ واک کی، زیادہ تر پہناوے موسم بہار سے مطابقت رکھتے تھے اس کے علاوہ تیراکی کیلئے استعمال ہونے والے لباس بھی اس فیشن شو کا حصہ بنے، اس فیشن شو کا اہتمام ایک ہفتہ کیلئے کیا گیا تھا تا ہم شو کے پہلے ہی دن ویڈیوز منظر عام آنے پر سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا۔

یہ ایک انتہائی اہم معاملہ تھا کیونکہ اسلامی ملک سعودی عرب میں ایسا فیشن شو پہلی بار دیکھنے کو ملا، ریڈ سی فیشن ویک کے دوسرے روز مراکش کی ڈیزائنر یاسمینہ قنزال اور ڈیزائنر لیبل سارہ التویم اور ایو سوئم ویئر نے اپنے ڈیزائن کردہ ملبوسات پیش کیے، مشہور ماڈلز نے ان ملبوسات کو پہن کر کیٹ واک کی، اپنی اپنی باری پر مختلف ڈیزائنر نے اپنے ملبوسات کی نمائش کی۔

یاسمینہ کے شو میں جہاں کپڑوں اور رنگوں کو پسند کیا گیا وہیں سارہ التوائیم کے ماڈلز نے لیس کڑھائی والے ملبوسات اور بھاری رنگوں کے  ملبوسات  پہن کر واک کی، اسی طرح  ایو سوئم ویئرکے  شو کے دوران ماڈلز نے سرخ، گلابی، سبز اور نیلے رنگوں میں ون پیس سوئم سوٹ پہنے، یہ لباس تیراکی کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔

سارہ التویم کے ڈیزائن کردہ ملبوسات

ریڈ سی فیشن ویک کے رنگوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب ڈیزائنر سارہ التویم پول کے کنارے رن وے پر اپنے ملبوسات لے کر آئیں، ان ملبوسات میں سے ہر ایک منفرد تھا، بعض پر باریک موتی تھے، کچھ تہہ دار کٹس والے تھے جبکہ کچھ پر کئی ایک کپڑے جوڑے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: Netflix کی مشہور سیریز Wednesday Season 2 کے سپائلرز اور جینا اورٹیگا کا اپنے پروفیسر سے رومانس

سارہ التویم نے پانی کے اندر پہنا جانے والا ایک شفان فیبرک متعارف بھی کرایا جس میں سمندری مخلوقات مچھلی، جھینگا اور کیکڑے وغیرہ کے نقش بنے ہوئے تھے۔جس کو مداحوں نے خوب داد دی۔موتیوں کی بھاری تہوں والے نک پیس، سارونگ جیسی سکرٹس، زیورات سے جڑے جال، میٹیلک فیبرکس اس نمائش کے خاص حصہ تھے۔

نمائش کے اس مرحلے میں متعدد وائٹ فلوئنگ لیس اور شفان کے ملبوسات پیش کیے گئے۔

مراکش کی ڈیزائنر یاسمینہ قنزال کے ملبوسات

 مراکش کے مشہور برینڈ نے پہلی مرتبہ تیراکی کے ملبوسات کی نمائش کی، نمائش میں تیراکی کے سادہ لباس بھی تھے جن میں ڈیپ وِی کٹس اور آف شولڈرز موفِٹس کے ساتھ ساتھ بینڈیو ٹاپس اور مختلف سارونگ شامل تھے۔

نمائشی شو کے دوران  رائل بلیو، مسٹرڈ ییلو، ہنٹر گرینز اور میرون ریڈ جیسے رنگ چھائے رہے جو موسم گرما  میں استعمال کے لیے انتہائی مناسب سمجھے جاتے ہیں، کچھ ملبوسات کے ساتھ ریشمی ہیڈویئر اور نفیس ہینڈ بیگز کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

بعض ماڈل کے ہاتھوں میں بنی ہوئی موتیوں والی باسکٹس، سٹرا بِیچ بیگز اور جھالر والے کلچ شامل تھے۔نمائش میں شامل نمایاں سلیویٹ میں لہراتی ہوئی آستینیں اور تنگ کمر نمایاں نظر آرہی تھی جبکہ کچھ ملبوسات بغیر آستین کے بھی تھے ۔

یاسمینہ کیو کی نمائش میں گرمیوں والے بکٹس ہیٹ اور دھوپ کے چشموں کے ساتھ سٹائل کردہ ملبوسات بھی شامل تھے۔اسی طرح رِب بوٹمز سے لے کر سادہ اور چست ٹاپس، اسی طرح فِٹڈ بٹن-ڈان، کیمونو ٹاپس اور ڈھیلے سویٹرز کی بھی نمائش کی گئی۔

swimsuit fashion show in saudia arabia1
swimsuit fashion show in saudia arabia

سوشل میڈیا صارفین کی تنقید

اسلامی ممالک میں اس قسم کے فیشن شوکرنے پر سوشل میڈیا پر تنقید کی جارہی ہے، فیشن شو کی تصاویر جیسے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو سوشل میڈیا صارفین نے سعودی عرب کے بارے میں کئی قسم کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔

انسٹا گرام پر ایک مشہور یو ٹیوبر نے اپنے ویلاگ میں کہا کہ اسلامی نقطہ نظر سے کسی بھی اسلامی ممالک میں اس قسم کے بیہودہ  فیشن شو کی قطعی اجازت نہیں دی جا سکتی مگر چونکہ سعودی عرب میں اب امریکہ کی اجارہ داری بڑھتی جارہی ہے اس لیے اب اسلامی قوانین کو پس پشت ڈالا جارہا ہے اور بے حیائی کے دروازے کھولے جارہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پیاری درفشاں محض 4 سال میں ڈرامہ انڈسٹری کی ملکہ کیسے بنیں؟ ٹیلنٹ یا قسمت؟

فیس بک اور ٹیوٹر پر بھی لوگوں نے سعودی عرب میں اس فیشن شو کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا، ایک صارف نے لکھا کہ ”سعودی عرب میں اب اسلامی ثقافت کی بجائے یہودی کلچر سکھایا جانے لگا ہے ۔بے حیائی وہ پہلا راستہ ہے جس سے چل کر عرب ممالک تباہی کے گھڑے میں گریںگے اب وہ وقت قریب آتا دکھائی دے رہا ہے ”۔

ٹیوٹر اکائونٹ پر ایک صارف نے لکھا کہ ”سعودی عرب نے اپنی ثقافت کا جنازہ نکال دیا ہے اس پر اب نوحہ ہی پڑھا جا سکتا ہے ”۔

عربوں کے زوال اور تباہی کا آغاز

قرآن مجید فرقان حمید چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا اس لیے عرب ممالک پر ہی سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی نشرو اشاعت اور ترویج کیلئے کام کریں اور اللہ کے قوانین کو اپنی سرزمین پر نافذ کریں۔

اس حوالے سے سب سے زیادہ پوچھ کچھ بھی ان سے ہی ہو گی، مگر اب سعودی عرب کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ وہاں پر اسلامی اقدار کی بجائے  مغربی تہذیب و ثقافت کا اثر دکھائی دینے لگا ہے، فحاشی اور بے حیائی کا عام ہونااس بات کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ عربوں کے زوال اور تباہی کا آغاز ہو چکا ہے۔

اس حوالے سے حضور پاک ۖ کی کئی احادیث بھی موجود ہیں، مشہور مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کئی تقاریر میں ان احادیث کا حوالہ بھی دیا ہے ۔

راقم کا تبصرہ

دشمنان اسلام کی سازش کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے، اسلامی ملک سعودی عرب کی خواتین میں اسلامی(باپردہ لباس) کی بجائے مغربی لباس(برہنہ پا) کی ترغیب پر کام جاری و ساری ہے۔

یہ کہنا بجا ہو گا کہ دشمن اسلام کا تیر بالکل ٹھیک نشانے پر لگا ہے، ازل سے ہی دشمنان اسلام کا پہلا شکار مسلمانوں کا لباس تھا، بہ بات وہ باخوبی جانتے ہیں کہ اگر مسلمان لے لباس ہو جائے تو اس کی غیرت مر جاتی ہے پھر اسے مارنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔

انگریز سعویہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنے جارہا ہے، آدھی ننگی خواتین کے ملبوسات کی نمائش کا آغاز ہو گیا ہے، اب اسے یہاں تک ہی  محدودنہ سمجھیں یہ آہستہ آہستہ بے حیائی کا راستہ کھولیں گئے۔اللہ تعالی اسلامی خواتین کی عزتوں کی حفاظت فرمائے ۔

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے