ڈیرا اسماعیل خان کے علاقے کری شموزئی مین دیہی مرکز صحت پر دہشتگردوں کے حملے – Terrorism – میں پانچ سویلین شہری شہید ہو گئے جن میں دو لیڈی ہیلتھ ورکرز، دو معصوم بچے اور ایک چوکیدار شامل ہے۔
حملے اور شہادتوں کے بعد سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران تین دہشتگرد ہلاک ہو گئے جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں دو فوجی اہلکار بھی ہلاک ہو گئے تاہم آئی ایس پی آر کی جانب سے ان کے اپنے شہداء کے تفصیلات تو جاری کی گئی ہیں لیکن رورل ہیلتھ سنٹر میں شہید ہونے والے سویلین شہریوں کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
دوسری جانب بنوں کینٹ میں دہشتگردوں کے خود کش حملے میں 8 فوجی اہلکار شہید ہو گئے جبکہ جوابی کارروائی میں دس حملہ آوروں کی ہلاکت کا آئی ایس پی آر کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے۔
Terrorism in Banu and DI Khan
Army Failed to Stop Terrorism in Pakistan, In Banu, citizens took to the streets, rallies, and protestsدہشتگردوں نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی کو بنوں کینٹ کی دیوار کے ساتھ ٹکرا دیا جس سے دیوار ٹوٹ گئی اور 8 جوان جاں بحق ہو گئے، واقعے میں سڑک پر کام کرتے ہوئے پانچ مزدوروں کی شہادت کی بھی اطلاعات ہیں لیکن تاحال آئی ایس پی آر کی جانب سے اس پر کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی ہے۔
دہشتگردی میں ہونے والی 10 فوجی ہلاکتیں:
ڈیرا اسماعیل خان میں شہید ہونے والے اہلکار:
- صوبیدار محمد فاروق، عمر 44 سال، رہائشی ضلع نارووال
- سپاہی محمد جاوید اقبال، عمر 23 سال، رہائشی ضلع خانیوال
بنوں میں شہید ہونے والے فوجی اہلکار::
- صوبیدار محمد شہزاد، عمر 44 سال، رہائشی آزاد کشمیر
- حوالدار طل حسین، عمر 39 سال، رہائشی ضلع خوشاب
- حوالدار شہزاد احمد، عمر 28 سائل، رہائشی ضلع نیلم
- سپاہی اشفاق حسین خان، عمر 30 سال، رہائشی مظفر آباد
- سپاہی سبحان مجید، عمر 22 سال، رہائشی مظفر آباد
- سپاہی امتیاز حسین، عمر 30 سال، رہائشی ضلع کرک، کے پی کے
- سپاہی ارسلان اسلم، عمر 26 سال، رہائشی ضلع بہاولپور
- لانس نائیک سبز علی، عمر 34 سال، رہائشی لکی مروت، کے پی کے
آئی ایس پی آر کے مطابق بنوں کینٹ میں دہشتگردی کی کارروائی کی حافظ گل بہادر گروپ کی طرف سے کی گئی ہے جسے افغانستان سے آپریٹ کیا جاتا ہے واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے کچھ عرصہ قبل حافظ گل بہادر گروپ کے خلاف افغانستان کی حدود میں کارروائیاں بھی کی گئی تھیں، دہشتگردی میں ملوث بیشتر گروپ ٹی ٹی پی میں ضم ہو چکے ہیں لیکن حافظ گل بہادر گروپ تاحال آزادانہ کام کر رہا ہے۔
بندوں میں 5 شہریوں کی ہلاکت پر احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں
بنوں میں غیر مصدقہ طور پر پانچ مزدوروں کی شہادت پر بنوں کے لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور مین بازار میں ریلی بھی نکالی گئی اور کوہاٹ روڈ کو بند کر دیا گیا۔
ریلی میں شہریوں نے سفید جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور ہاتھوں میں بینرز تھے، احتجاج کے دوران عوام کی جانب سے یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے جیسے متنازعہ نعرے بھی لگائے اور مسلح اداروں کے کردار پر کڑی تنقید کی، بعد ازاں گرینڈ قومی جرگہ چیمبر آف کامرس کے دفتر میں بلایا گیا لیکن شرکاء کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے جرگے کو پریس کلب بنوں منتقل کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں، سیاسی کارکنوں کا قتل، تشدد، رپورٹ جاری
سوشل میڈیا پر بنوں میں ہونے والی دہشتگردی – Terrorism – کی وائرل فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سڑکوں پر لاشیں بکھری پڑی ہیں، عوام علاقہ کا کہنا تھا کہ ہمیں لاشیں نہیں اٹھانے دی جا رہی تھیں جبکہ ایمبولینس لاشیں اٹھانے آئی تو آرمی کی جانب سے اس پر بھی فائرنگ کی گئی۔
بنوں میں دہشتگردی کے واقعے کے جمعہ والے دن مکمل شٹر ڈائون ہڑتال کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے جبکہ اتوار والے دن بنوں قومی امن جرگہ بھی میلاد چوک میں کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے، جرگے میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، جرگے نے واضح کیا ہے کہ شٹر ڈائون ہڑتال میں اگر کوئی دکان کھلی نظر آئی تو اسے جلا دیا جائے گا۔
مسلح اداروں کے ناکام آپریشنز
پاکستان کی مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیاں آپریشن عزم استحکام پر زور دے رہی ہیں تاہم مسلح اداروں کی جانب سے پہلے بھی متعدد آپریشنز کئے جا چکے ہیں جن پر پاکستان قوم کے اربوں روپے خرچ ہوئے اور جانی و مالی نقصانات الگ ہوئے لیکن مسلح ادارے اور ایجنسیاں پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمے میں ناکام رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے والے آپریشنز کی ناکامی کی وجوہات کیا تھیں؟ کیا یہ وجوہات قوم کے سامنے رکھی جائیں گی؟ اور اگر آپریشن کامیاب تھے تو پاکستان سے دہشتگردی کیوں نہ ختم ہوئی؟ نیز پہلے والے آپریشنز جس طرح ناکام ہوئے کیا گارنٹی ہے کہ نیا آپریشن عزم استحکام ناکام نہیں ہو گا؟
کے پی کے حکومت کی ناکامی:
وزیر اعلی کے پی کے علی امین گنڈا پور نے بھی معمول کے مطابق دہشتگردی کی مذمت کی ہے اور شہداء کے لواحقین اکیلا نہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے لیکن ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں میں دہشتگردی میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کی تفصیلات جاری کرنے میں کے پی کے حکومت بے بس نظر آئی ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے فوجی ہلاکتوں کی تفصیلات جلد ہی منظر عام پر آ گئی تھیں لیکن سویلین حکومت اپنے شہریوں کی تفصیلات جاری نہیں کر سکی اور تا دم تحریر کسی بھی سویلین شہید کا نام منظر عام پر نہیں آیا ہے محض تعداد پر اکتفا کیا جا رہا ہے جبکہ بنوں میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کی خبر بھی نامعلوم وجوہات کی بناء پر جاری نہیں کی گئی اور تاحال سرکاری یا آئی ایس پی آر کی سطح پر ان ہلاکتوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر بنوں میں صرف دہشتگردوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور بنوں کے لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ کہیں عام سویلین ہلاکتوں کو بھی جو 10 دہشتگرد ہلاک ہوئے ہیں ان میں تو نہیں ڈال دیا گیا؟
وزیر اعظم شہباز شریف کی دہشتگردی کی مذمت:
پاکستان کے فارم 47 کی بنیاد پر بننے والے وزیر اعظم شہباز شریف نے معمول کے مطابق دہشتگردی – Terrorism – کی مذمت کی ہے اور ہمیشہ کی طرح پاک افواج کی قربانیوں کا ذکر کے سویلین شہریوں کی شہادت پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور افواج پاکستان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔