- عمران خان پر الزام تھا کہ انہوں نے واشنگٹن سے آنے والے خفیہ خط سائفر کو پاکستانی قوم کے سامنے پبلک کر دیا تھا اور اس کی ایک کاپی گم کر دی تھی۔
- پاکستانی حکومت کا سائفر کیس میں بریت کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار تاہم ابھی تک فیصلے کے خلاف جوابی کارروائی کے تحت کوئی پیش رفت سامن نہیں آئی۔
امریکہ نے سائفر کیس پر عمران خان کی بریت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستانی عدالتوں پر منحصر ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان پر الزامات کے بارے میں کیا فیصلے کرتی ہیں، واشنگٹن سے جانے والے سفارتی خط سائفر سے متعلق کیس میں ان کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے جس کے بارے میں خان کا دعوی تھا کہ یہ ثبوت ہے کہ ان کی حکومت کو امریکہ کے حکم پر گرایا گیا ہے۔
سائفر کیس کا پس منظر
عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی شاہ محمود قریشی کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی جانب سے بھیجے گئے ایک خفیہ خط کے مندرجات کو اپریل 2022 میں عدم اعتماد سے چند دن قبل پبلک کر کے پاکستان کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے کیس میں راولپنڈی میں قائم اڈیالہ جیل میں ایمرجنسی میں مقدمہ قائم کر کے بڑی تیزی کے ساٹھ اس کی کارروائی مکمل کر کے 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ میں دونوں سیاسی رہنمائوں کی جانب سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔
سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے بانی نے اسلام آباد میں اپنے ایک جلسے میں دعوی کیا تھا کہ ایک سینیئر امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو نے پاکستان کو دھمکی دی ہے اور نتائج سے خبردار کیا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نہ گرائی گئی تو پاکستان کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکہ متعدد بار اور مختلف موقعوں پر عمران خان کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں جھوٹ قرار دیتا آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: باجوہ پر بھروسے کا پچھتاوا، عمران خان کا امریکی صحافی مہدی حسن کو جیل سے ایکسکلوزو انٹرویو
امریکی محکمہ خارجہ کا موقف
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے اپنی میڈیا بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ پاکستانی عدالتوں کو کرنا ہے، سابق وزیر اعظم غیر قانونی شادی کے الزام میں بھی سزا کے بعد جیل میں ہیں، اس معاملے پر بھی امریکہ محکمہ خارجہ کا موقف پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کے اختیار کا تھا۔
میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ جب آپ پاکستانی قوانین اور عدالتی کیسز پر بات کرتے ہیں تو یہ ان پر پاکستانی عدالتوں کو فیصلہ کرنا ہے اور آپ دیکھ بھی سکتے ہیں کہ عدالتوں نے خان کے خلاف الزامات کو خارج کر دیا ہے۔
گزشتہ دن اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سائفر کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا گیا تھا جس پر پاکستانی حکومت نے اپنے تحفظات کا اظہار تو کیا ہے لیکن اب تک اس فیصلے کے خلاف نہ تو کوئی اپیل دائر کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی اور پیش رفت دیکھی گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں میں جشن کا سماں
سائفر کیس میں عمران خان کی بریت کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان میں جشن کا ماحول ہے اور سائفر کیس سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے، پاکستان کی پی ڈی ایم سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں اب تک سائفر کے وجود سے ہی انکاری تھیں لیکن پھر قوم نے دیکھا کہ سائفر کو لے کر کیسے سابق وزیر اعظم پر قومی سلامتی کا کیس بنا کر انہیں سزا سنائی گئی اور اب قوم نے اس کیس کو ختم ہوتے ہوئے بھی دیکھ لیا ہے۔
یہ اتنا اہم کیس تھا کہ اس فیصلے پر امریکہ بھی رد عمل دینا پر مجبور ہو گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کیس کی اہمیت کتنی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے لئے یقینا یہ خوشی کا مقام ہے۔