پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم – Donald Bloom – نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کے اہم ساتھی اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان سے ایک اہم ملاقات کی ہے جس میں موجودہ چیئر مین بیرسٹر گوہر علی خان، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور پارٹی کے ترجمان رئوف حسن بھی موجود تھے۔
Why did US Ambassador Donald Bloom need to meet PTI leadership?
بات شروع کرنے سے قبل میں اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد بدترین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے اور کچھ عرصے سے پاکستان تحریک انصاف کا رویہ انتہائی جارحانہ ہو چکا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے عمران خان سب کشتیاں جلا دینے کا اصولی فیصلہ کر چکے ہوں۔
میں اس ملاقات کے تناظر میں عدلیہ کی نئی کروٹ کا بھی ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس طرح عدلیہ نے بھی جارحانہ حکمت عملی اختیار کی ہے تو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی بھی بیک فٹ پر ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انصاف دینے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔
اب میں اس ملاقات پر تفصیل سے بحث پیش کروں گا تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ آئندہ پاکستان میں کیا ہونے جا رہا ہے اور یہ سب کس سلسلے کی کڑی ہے۔
عمران خان کے امریکہ پر الزامات
عمران خان کا الزام ہے کہ امریکہ کی پشت پناہی میں پاکستان کی طاقت فوجی قیادت اور سیاسی قیادت نے مل کر اپریل 2022 میں ان کی حکومت کو گرایا تھا جس کی تینوں فریق آج تک صفائیاں دیتے اور الزام سے انکار کرتے آ رہے ہیں۔
اپریل 2022 میں پاکستان میں رجیم چینج آپریشن کے بعد سے آج تک پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور پاکستان کی طاقت ور فوجی قیادت کے درمیان شدید نوعیت کے اختلافات اور ایک طرح کی جنگ چلی آ رہی ہے۔
عمران خان اور مقتدر حلقوں کی اس جنگ میں پاکستان کے مقدر حلقوں کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف متعدد اقدامات اٹھائے گئے جن میں انسانی حقوق کی شدید نوعیت کی خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں۔
ڈونلڈ لو – Donald Lu – کی امریکی کانگریس میں پیشی
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کیا اور اس معاملے کو امریکہ کے ایوانوں تک لے کر گئی اور امریکی سینیٹر سے حمایت حاصل کی جس پر پاکستان میں رجیم چینج کے اہم امریکی کارندے – Donald Lu – کو یو ایس کانگریس میں طلب کر کے جواب بھی طلب کیا گیا۔
امریکی سفارتخانے کا ملاقات پر بیانیہ
امریکی سفیر – Donald Bloom – کی پی ٹی آئی لیڈر شپ سے ملاقات کے حوالے سے امریکی سفارت خانے نے بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ بلوم نے پاکستان کے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان اور حزب اختلاف کے دیگر سینئر ارکان سے ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعلقات سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جن میں معاشی اصلاحات، انسانی حقوق اور علاقائی سلامتی کے لیے امریکی تعاون شامل ہے۔
پی ٹی آئی کا ملاقات پر بیانیہ
دوسری جانب پی ٹی آئی کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ امریکی سفیر کی جان سے عمر ایوب سے ملاقات کی خواہش پاکستانی وزارت خارجہ کے ذریعے کی گئی تھی جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی سفارخانے نے اس ملاقات کے لئے پی ٹی آئی رابطے کئے تھے جس پر پی ٹی آئی لیڈر شپ نے باقاعدہ چینل کے ذریعے ملاقات کرنے کا کہا تھا۔
Read More: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی ایکسٹیشن کا ہنگامہ، کیا ہونے جا رہا ہے؟
ملاقات کا ایجنڈا
رپورٹس کے مطابق امریکی سفیر نے پاکستان کے اصلاحاتی پروگرام پر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کے لئے حزب اختلاف سے امریکہ کی حمایت کی اپیل کی ہے اور پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے طویل مدتی اصلاحات کی اہمیت پر زور دیا ہے، واضح رہے کہ جن اصلاحات کی بات ہو رہی ہے وہ امریکی ایماء پر آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان سے بطور شرط کروائی جا رہی ہیں۔
آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج
اپریل میں پاکستان نے آئی ایم ایف کا 3 ارب ڈالر کا پروگرام مکمل کیا تھا، یہ پروگرام اس وقت لیا گیا تھا جب پاکستان تقریباً ڈیفالٹ کر چکا تھا اور ڈیفالٹ کی صورتحال سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف سے 3 بلین ڈالر کا قرض حاصل کیا گیا تھا لیکن اس پروگرام کے مکمل ہوتے ساتھ ہی پاکستان آج پھر ڈیفالٹ کی نہج پر کھڑا ہوا ہے اور شہباز حکومت آئی ایم ایف سے ایک نیا طویل المدتی پروگرام لینے کے لئے کوششیں کر رہی ہے۔
عمران خان کا آئی ایم ایف کو خط کا معاملہ
دوسری جانب سے پی ٹی آئی نے نئے آئی ایم ایف پروگرام کی حمایت سے معذوری ظاہر کی تھی اور عمران خان نے آئی ایم ایف کو ایک خط لکھا تھا جس میں زور دیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف مزید بیل آئوٹ پیکیج دینے سے قبل پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے بنائی گئی جعلی حکومت اور سیاسی عدم استحکام کو بھی مد نظر رکھے۔
امریکی سفیر کی پی ٹی آئی قیادت سے ملاقات کی ممکنہ وجوہات
قرائن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم – Donald Bloom – کو ملاقات کی یہ ضرورت اسی خط کی وجہ سے پیش آئی ہے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ملاقات ایک مجبوری کے تحت کی گئی ہے جس کی وجوہات سیاسی اور انتخابی ہیں۔
پاکستانی عدلیہ میں عام انتخابات میں دھونس اور دھاندلی سے متعلق زیر سماعت کیسز میں اگر پاکستان تحریک انصاف کے حق میں فیصلے آ جاتے ہیں تو پی ٹی آئی موجودہ حکومت کو گھر بھیج کر اقتدار میں واپس آ سکتی ہے۔
اس صورت میں پی ٹی آئی کی رضا مندی کے بغیر حاصل کیا گیا آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج امریکہ کے لئے ایک مصیبت بن سکتا ہے اور تحریک انصاف اس بیل آئوٹ پیکیج سے اظہار لاتعلقی کا اعلان بھی کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ایسا واقعہ ہو چکا ہے جب عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل کچھ امور پر لچک نہ دکھاتے ہوئے سٹینڈ لے کر آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کے پروگرام کے توسیعی منصوبے پر پیش رفت میں رکاوٹ پیدا کی تھی جس کا الزام عمران خان کے مخالفین آج بھی ان پر لگاتے آ رہے ہیں۔
ڈیفالٹ کے خطرات
گزشتہ سال تو پاکستان آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کی وجہ سے ڈیفالٹ سے بچ نکلا تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان آج بھی ایک بڑے مالی بحران سے دوچار ہے اور ڈیفالٹ کا خطرہ پہلے کی طرح موجود ہے، حالانکہ پاکستان اپنے امپورٹ بلز کے معاملے میں کچھ کمی لے کر آیا ہے لیکن اس سے بھی کوئی خاص مدد نہیں مل پا رہی ہے۔
رواں ماہ مئی کے وسط میں آئی ایم ایف ٹیم کی پاکستان آمد اور نئے پروگرام کے لئے باضابطہ مذاکرات کی شروعات موقع ہے اور عمران خان آج بھی امریکہ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ان کی حکومت گرانے والے ان کے حریفوں کا ساتھ دے رہا ہے۔
ممکنہ طور پر یہی وجوہات ہو سکتی ہیں کہ عمران مخالف امریکی حکومت کی ایماء پر پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے وفد کو عمران خان کے قریبی ساتھیوں سے ملاقات کی ضرورت پیش آئی ہے۔
پی ٹی آئی کے امریکہ سے مطالبات
اس ملاقات میں پاکستان تحریک انصاف نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں اور 8 فروری کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی پر امریکہ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اختتامیہ
آخر میں اس بات کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ حزب اختلاف سے ملاقات کے بعد جب امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم باہر نکلے تو ایک صحافی نے امریکہ کو پاکستان میں ملٹری اڈوں کے فراہمی اور عمران خان کی رہائی سے متعلق سوال کیا تو نہ تو انہوں نے اس کی تردید کی اور نہ اقرار کیا بلکہ خاموشی اختیار کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔
آپ کے خیال میں امریکی سفیر کی اڈوں سے متعلق تردید نہ کرنے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ کمنٹس میں ضرور بتائیے گا۔
Excellent Excellent Excellent 👏
OK thanks so much for information
You are most welcome sir,kepp reading latest articles
بہت شاندار تجزیہ ہے۔
بہت شکریہ سر