pti jalsa in tarnol islamabad
  • گزشتہ ماہ بھی پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسلام آباد میں جلسہ ملتوی کر رہی ہے کیونکہ ضلعی انتظامیہ نے اجازت نامہ منسوخ کر دیا ہے۔
  • پی ٹی آئی، جس کا مقصد عمران خان کی جیل سے رہائی کے لیے عوام کو متحرک کرنا ہے، ایک سال سے ان کی گرفتاری کیخلاف عوامی اجتماعات منعقد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسلام آباد۔ چیف کمشنر اسلام آباد نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو کل وفاقی دارالحکومت میں پاور شو اور جلسہ کرنے سے روک دیا ہے۔

گزشتہ ماہ پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسلام آباد میں ہونے والے جلسے کو ملتوی کر رہی ہے کیونکہ ضلعی انتظامیہ نے اجازت منسوخ کر دی تھی، پاکستانی دارالحکومت کے مضافات ترنول میں ہونے والے اس اجتماع کا مقصد خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا تھا، جو گزشتہ سال اگست سے جیل میں ہیں۔

فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل ان کو سنائی گئی چاروں سزائیں یا تو معطل کر دی گئی ہیں یا انہیں منسوخ کر دیا گیا ہے لیکن وہ نئے الزامات کے تحت جیل میں ہیں، خان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف تمام قانونی مقدمات سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔

پی ٹی آئی کے سینئر رکن اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے 5 اگست کو اعلان کیا تھا کہ پارٹی اگست کے آخری ہفتے یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں جلسہ کرے گی، اس کے بعد اجتماع کی تاریخ 22 اگست مقرر کی گئی تھی۔

Imran Khan's PTI Islamabad Jalsa Revoked

پی ٹی آئی کا جلسہ منسوخ کئے جانے کی وجوہات کیا ہیں؟

چیف کمشنر آفس کے اعلامیہ کے مطابق "قانون نافذ کرنے والے اداروں، متعلقہ محکموں کی رائے پر غور کرنے اور صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلام آباد میں امن و امان کی موجودہ صورتحال 22-08-2024 کو اسلام آباد میں اس طرح کے اجتماع / جلسوں کے انعقاد کی اجازت نہیں دیتی ہے جس کے لئے ڈپٹی کمشنر کی طرف سے 31-07-2024 کو دیا گیا این او سی منسوخ کرنا ضروری ہے۔

چیف کمشنر آفس کی جانب سے 21 اگست کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ دارالحکومت کی پولیس کی استعداد بارے رپورٹ طلب کی گئی تھی جس کے جواب میں انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس نے کہا کہ اسلام آباد میں بیک وقت ہونے والے متعدد واقعات کی وجہ سے ان کے پاس پی ٹی آئی کے جلسے کی سیکیورٹی کے لیے وسائل نہیں ہیں۔

حال ہی میں مذہبی گروہوں نے سپریم کورٹ کے توہین مذہب کے فیصلے کے خلاف ڈی چوک میں پرتشدد مظاہرے کیے ہیں اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم بھی دو ٹیسٹ میچوں کے لیے پاکستان میں موجود ہے جس کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے پولیس تعینات کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شیر افضل مروت کی پی ٹی آئی میں واپسی، احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے کا اعلان

پی ٹی آئی کے لوگ دھرنے کی پلاننگ کر کے آ رہے ہیں، انتظامیہ

نوٹی فیکیشن میں کہا گیا ہے انکشاف کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے جلسے میں آنے والے افراد طویل قیام کا منصوبہ بنا کر آ رہے ہیں اور آنسو گیس کے لئے ماسک، بستر یا سلیپنگ بیگز اور کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لانا ان کے جلسے کو دھرنے میں تبدیل کرنے کے منصوبے کی نشاندہی کرتا ہے۔

اسلام آباد کے حساس ریڈ زون میں 46 سفارت خانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہاں پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ جیسی اہم سرکاری عمارتیں ہیں، نوٹیفکیشن میں مختلف صوبوں بالخصوص پنجاب کے حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 22 اگست کو مجوزہ ریلی کے شرکا کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکیں۔

تمام بڑی خفیہ ایجنسیوں کا اعلامیہ میں ذکر

چیف کمشنر نے کہا کہ اسپیشل برانچ نے عوامی اجتماعات کے خلاف دھمکیوں اور امن و امان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے ریلی کو منظوری دینے سے بھی انکار کردیا ہے، آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندوں نے بھی امن و امان کی صورتحال، تھریٹ الرٹس، بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کی موجودگی اور ریڈ زون میں ختم نبوت کی ریلیوں کی وجہ سے ہونے والی حالیہ بدامنی کا حوالہ دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

ایجنسیوں نے پی ٹی آئی کے ماضی کے طرز عمل اور ٹریک ریکارڈ کا حوالہ دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن و امان کی سنگین صورتحال پیدا ہوسکتی ہے اور سختی سے سفارش کی کہ موجودہ حالات میں کسی بھی سیاسی ریلی کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔

جلسے کی وجہ سے پنجاب میں دفعہ 144 کا نفاذ

حکومت پنجاب نے پاکستان تحریک انصاف کے 22 اگست کے جلسے کو روکنے کے لئے پنجاب میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے جس کے تحت پنجاب بھر میں جلسے جلوس، دھرنوں، ریلیوں اور کسی بھی قسطم کے احتجاج پر 22 اگست سے 24 اگست تک پابندی ہو گی، پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے پابندی کا اطلاق دہشتگردی کے خطرات اور انسانی جانوں و املاک کے تحفظ کے لئے کیا ہے۔

وزیراعلی کے پی کے علی امین گنڈا پور کا جلسہ منسوخ نہ کرنے کا اعلان

اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے 22 اگست کے جلسے کی منسوخی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اور کے پی کے وزیراعلی علی امین گنڈا پور نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے سے روکا جا رہا ہے تاہم ہم ہر حال میں جلسہ کریں گے۔

علی امین نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ کل وہ صوابی انٹرچینج سے جلسے کی قیادت کریں گے، انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کل صوبی انٹرچینج پر جمع ہوں جہاں سے علی امین کی قیادت میں وہ ترنول پہنچیں گے، علی امین کا کہنا تھا کہ ہمیں عدالت نے جلسہ کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے، حکومت کے غیر قانونی اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔

Chief Minister KPK Ali Amin Gandapur
Chief Minister KPK Ali Amin Gandapur

جلسہ تو ہو گا، پی ٹی آئی

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جلسے کا این او سی منسوخ کئے جانے پر شدید ردعمل دیا جا رہا ہے اور جلسہ سوشل میڈیا کی ٹاپ ٹرینڈنگ میں آ گیا ہے، پی ٹی آئی اسلام آباد کے صدر عامر مغل نے کا کہنا تھا کہ جلسہ تو ہو گا، جلسہ 22اگست شام 4 بجے پشاور روڈ ترنول چوک پر ہر صورت ہو گا۔

عامر مغل کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے این او سی منسوخ کیا ہے لیکن پی ٹی آئی نے جلسہ منسوخ نہیں کیا، پی ٹی آئی کی جلسہ کمیٹی کے تمام ممبران کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جلسہ ضرور ہو گا، ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جدوجہد پی ٹی آئی کو آئینی و قانونی حق ہے جسے ہم ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے ۔

پی ٹی آئی کے جلسے کا پس منظر

پی ٹی آئی، جس کا مقصد اپنے رہنما کی رہائی کے لیے عوام کو متحرک کرنا ہے، گزشتہ سال اگست سے ملک بھر میں ریلیاں منعقد کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، جب خان کو متعدد الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں چار مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی، جن میں سے تمام کو اعلی عدالتوں نے منسوخ کر دیا تھا۔

پارٹی کا کہنا ہے کہ اسے خان کے ساتھ کھڑے ہونے پر ریاستی حمایت یافتہ کریک ڈاؤن اور اس کے ارکان اور حامیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری کا سامنا ہے۔ پاکستانی حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن اس وقت شروع ہوا جب پارٹی کے مبینہ حامیوں پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے 9 مئی 2023 کو سرکاری اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے اور انہیں نقصان پہنچایا، یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ایک سال قبل عمران خان نے پاکستان کی طاقتور افواج پر الزام عائد کیا تھا کہ ادار ے نے انہیں عہدے سے ہٹانے کے لیے ان کے سیاسی حریفوں کے ساتھ ملی بھگت کر رہا ہے جبکہ فوج ان الزامات کو مسترد کرتی آئی ہے۔

9 مئی کے فسادات کے بعد پی ٹی آئی کے سیکڑوں کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا اور بہت سے اب بھی مقدمے کا انتظار کر رہے ہیں، فوج نے تشدد میں ملوث ہونے کے الزام میں کم از کم 103 افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات بھی شروع کیے ہیں، خان کے بہت سے قریبی ساتھیوں نے اس کے بعد سے انہیں چھوڑ دیا ہے ، جس کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ فوج کا دباؤ ہے ، جو سیاست میں مداخلت سے انکار کرتی ہے۔

مذاکرات کی مشروط پیشکش

خان نے حال ہی میں فوج کو مذاکرات کی "مشروط” پیش کش کی ہے، اگر "صاف اور شفاف” انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور ان کے حامیوں کے خلاف "جعلی” مقدمات واپس لے لیے جاتے ہیں۔ فوج، جو بار بار یہ کہتی رہی ہے کہ خان اور ان کی پارٹی 9 مئی کے حملوں کے پیچھے تھی، نے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت سے انکار کیا ہے۔

Similar Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے